سیلاب سے متاثر حاملہ خواتین: ”نہ ہی دوائیاں اور نہ ڈاکٹر ہمارے بس میں ہے۔”
کائنات علی
گزشتہ سال اگست میں آنے والے سیلاب کی وجہ سے ملک کی 33 ملین سے زائد آبادی متاثر ہوئی جس میں خوتین اور بچے بھی شامل تھے۔ سیلاب کی وجہ سے ساری خواتین متاثر ہوئیں مگر وہ خواتین جو حامہ تھیں، وہ سیلاب کی وجہ سے زیادہ مشکلات کا شکار رہیں۔
چارسدہ سے تعلق رکھنے والی لیلیٰ نے بتایا کہ وہ چار ماہ کی حاملہ تھیں جب سیلاب آیا، اور جب سیلاب گزر گیا، گھروں سے پانی نکل گیا اور وہ واپس اپنے گھر آئے تو بھاری کام کرنے کی وجہ سے ان کی صحت بہت متاثر ہوئی تھی، ”یہ اتنی بھاری بھاری چیزیں ہم نے اٹھائیں، کام کیا جس کی وجہ سے ہر وقت کمر میں درد رہتا ہے، کمزوری بڑھ گئی اس کے ساتھ، اور اس طرح کی خوراک بھی نہیں ہے اورنہ ہی دوائیاں اور ڈاکٹر ہمارے بس میں ہے۔”
انہوں نے مزید بتایا کہ پہلے ان کے مویشی تھے تو ان کا دودھ بیچتے بھی تھے ور خود بھی پی لیتے تھے لیکن سیلاب کے مالی لحاظ سے وہ کافی زیادہ کمزور ہو گئے، ”دودھ وغیرہ سب کچھ ہوتا تھا لیکن اب اس طرح کا کچھ بھی نہیں ہے، ڈاکٹر کے پاس جاؤ تو خوامخوا پانچ چھ ہزار فیس (اور دوائیوں) کی مد میں لگتے ہیں، اب بھی ساس نے کہا لیکن میں نے بتایا کہ نہیں، ایک ہی واری پانچ چھ ہزار لگتے ہیں، ہیں نہیں اتنے مگر لگتے بہت ہوتے ہیں۔”
ایک اندازے کے مطابق سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں تقریباً ساڑھے چھ لاکھ خواتین حاملہ تھیں جنہیں طبی امداد کی ضرورت تھی۔
لیلیٰ کی طرح سیما بھی ہیں جن کے بچے کی پیدائش میں تھوڑا سا عرصہ باقی تھا لیکن ان کا کہنا تھا کہ اس بار وہ بہت زیادہ کمزوری محسوس کر رہی ہیں کیونکہ سیلاب کی وجہ سے ان کی صحت پر ٹھیک طرح سے توجہ نہیں دی جا سکی، ”حمل کے دوران اب تک دو مرتبہ میرا چیک اپ ہوا ہے اور اب آج کل میں پیدائش متوقع ہے، ابھی جبکہ ٹائم پورا ہے تو میرے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں اور دن رات مجھے یہی فکر لاحق رہتی ہے کہ میں پیسے کس سے لوں گی تاکہ اس سے میں اپنی ضرورت پوری کر سکوں۔”
دوسری جانب شبقدر ہسپتال کے ایڈیشنل ایم ایس محمود جان کا کہنا تھا کہ انہوں نے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں 15 سے زائد فری میڈیکل کیمپ لگائے جن میں حاملہ خواتین کے علاج معالجے پر خصوصی توجہ دی گئی، ”سٹاف نرس بھی موجود رہتی ہے اور اس طرح کے پریگنینسی کے کیسز جب ہوتے تھے تو ہم ان کی کونسلنگ کر لیتے تھے اور اس وقت اگر انہیں کوئی اور شکایت ہوتی تھی تو اس کے لئے ہم انہیں میڈیسن دے دیتے تھے، اور اگر کبھی ڈیلیوری کا کوئی کیس ہوتا تھا تو اسے ہم ہسپتال کال کر لیتے تھے کہ آپ ہاسپٹل تشریف لائیں۔”
لیلیٰ اور سیما کی طرح کی حاملہ خواتین نے محکمہ صحت سے مطالبہ کیا کہ ان کے علاقوں میں ان کی طرح کی حاملہ خواتین کی صحت پر خصوصی توجہ دی جائے کیونکہ اس وقت وہ اس قابل نہیں رہیں کہ اپنا چیک اپ کرا سکیں یا پھر اپنا اور اپنے بچے کا خیال رکھ سکیں۔