”بچے ہیں، خاندان ہے، چھوڑ کر جانا آسان نہیں لیکن مجبوری ہے”
شاہین آفریدی
سال 2022 میں پاکستان سے 8 لاکھ نوجوان روزگار کی تلاش میں بیرون ملک چلے گئے ہیں۔
پاکستان کی معاشی صورتحال اس سال مزید خراب ہوئی ہے، امیگریشن بیورو کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ سال 2022 میں 832,339 سے زیادہ تعلیم یافتہ اور غیرتعلیم یافتہ لوگوں نے پاکستان کو خیرباد کہا جن میں زیادہ تر نوجوان شامل تھے۔ ملک میں روزگار کے کم ہوتے مواقع کے درمیان غیریقینی معاشی اور سیاسی صورتحال کی وجہ سے ان لوگوں نے بیرون ملک کام تلاش کرنے کا انتخاب کیا ہے۔
خوشحال خان کا تعلق قبائلی علاقے ضلع خیبر سے ہے جو پانی، بجلی، تعلیم صحت اور روزگار جیسی بنیادی ضروریات سے محروم علاقہ ہے۔ وہ ملک کی معاشی صورتحال، مہنگائی، روزگار کے کم مواقع اور تحفظ کی کمی کی وجہ سے پاکستان چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں۔
خوشحال خان کا کہنا تھا کہ انہوں نے یہ قدم اپنے خاندان کی معاشی صورتحال اور اپنے بچوں کے مستقبل کی خاطر اٹھایا ہے، وہ خلیجی ممالک جا رہے ہیں اور ایک مقامی ٹریول ایجنٹ سے ملنے پشاور آئے ہیں۔
خوشحال خان نے بتایا "یہاں مختلف شعبوں میں نوکری تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا، پھر اپنا کاروبار شروع کرنا چاہا لیکن نقصان اٹھانا پڑا، پاکستان اور خیبر پختونخوا میں مستحکم کاروبار ایک خواب بن کر رہ گیا ہے، کوئی مسقل نوکری یا کاروبار نا ہونے کی وجہ سے میں نے خلیجی ملک جانے کا فیصلہ کیا ہے جہاں پہلے سے میرا بھائی اور دیگر رشتہ دار موجود ہیں۔”
یہ صرف خوشحال خان ہی نہیں بلکہ ان جیسے سینکڑوں نوجوانوں کی کہانی ہے جو تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود ملک چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔
حمید اللہ کا تعلق مردان سے ہے، وہ زراعت کے شعبے میں گریجویٹ ہیں، ان کی کہانی بھی خوشحال خان سے کچھ کم نہیں اور نا چاہتے ہوئے بھی اپنا ملک چھوڑنے پر مجبور ہیں۔
ان کے ساتھی منیب شاہ کا تعلق دیر سے ہے، وہ پولیٹیکل سائنس کے گریجویٹ ہیں۔ یہ دونوں پڑھے لکھے نوجوان بحیثیت لیبر خلیجی ممالک جانے کی تیاری کر رہے ہیں۔
حمید اللہ نے بتایا "سوچا تھا پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور اس شعبے کا انتخاب اسی وجہ سے کیا کہ زراعت کے شعبے میں اپنے ملک کی خدمت کروں گا لیکن سب کچھ اس کے برعکس ہو گیا، عملی زندگی میں اپنے شعبے سے متعلق نوکری ڈھونڈنا اور پھر اس میں آگے جانا تقریباً ناممکن ہے۔”
منیب شاہ نے بتایا "نوجوانوں پر خرچہ ملک کا ہوتا ہے لیکن اس کا فائدہ باہر ممالک کو ہوتا ہے، مایوس ہو کر باہر ممالک جانے کے آپشن کو چنا ہے، میرے بچے ہیں، خاندان ہے، ان کو چھوڑ کر جانا آسان نہیں لیکن مجبوری ہے۔”
نیشنل مائیگریشن ایجنسی کی سالانہ رپورٹ کے مطابق 2022 میں 832,339 افراد نے پاکستان چھوڑا۔ یہ پچھلے سات سالوں میں ملک چھوڑنے والوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔
ملک چھوڑنے والے ان پڑھے لکھے نوجوانوں میں 5534 انجینئرز، 18000 الیکٹریکل انجینئرز، 2500 ڈاکٹرز، 2000 آئی ٹی ایکسپرٹس، 6500 اکاؤنٹنٹ، 2600 زرعی ماہرین، 900 سے زائد اساتذہ، 12000 کمپیوٹر ماہرین، 621 ٹیکنولوجسٹ اور ورکرز شامل تھے۔ غیرہنرمند کارکنوں میں 213,000 ڈرائیور شامل تھے۔
سید وزیر گزشتہ 17 سالوں سے پشاور میں بطور ٹریول ایجنٹ کام کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق خیبر پختونخوا سے بیرون ملک خصوصاً خلیجی ممالک جانے والوں میں سے زیادہ تر کا تعلق قبائلی اور پسماندہ علاقوں سے ہے۔
سید وزیر نے بتایا "یہ نوجوان بیرون ممالک جا کر بھی بطور لیبر کام کرتے ہیں، بہت کم ہی ایسے نوجوان ہیں جو اپنی فیلڈ سے متعلق نوکری ڈھونڈتے ہیں جو بہت خوش قسمت ہوتے ہیں، زیادہ تر باہر جانے والے لوگوں کے رشتہ دار وہاں ہوتے ہیں اس لیے آسانی سے جانے پر رضامند ہوتے ہیں لیکن اس سب کے باوجود ملک میں غیرمستحکم معاشی صورتحال کی وجہ سے اس تعداد میں اضافہ دکھائی دیتا ہے جو کہ تشویشناک ہے۔”
پاکستان دنیا کا پانچواں بڑا آبادی والا ملک ہے جس میں ٪64 نوجوان ہیں۔ لیبر فورس سروے (LFS) رپورٹ کے مطابق تعلیم یافتہ نوجوانوں کو روزگار کی تلاش میں مشکلات کا سامنا ہے اور ملکی آبادی کا ٪40 حصہ بے روزگار ہے۔
معیشت کی ابتر حالت، اس وقت قومی خزانے میں صرف 3.7 بلین ڈالر موجود ہیں، سیکیورٹی کی خراب صورتحال اور کام کی کمی وہ وجوہات ہیں جن کی وجہ سے اچھی تعلیم اور ہنر سے محروم نوجوان کم اجرت پر بیرون ممالک میں کام کرنے پر مجبور ہیں۔