بلاگزسیاست

یوم یکجہتی کشمیر: چھٹی، گانے اور تقریر۔۔۔؟

ماریہ سلیم

5 فروری۔۔ اسے یومِ کشمیر کی بجائے چھٹی کا دن، ریلیاں نکالنے کا دن اور سرکاری دفاتر میں نغمے گانے کا دن کہا جائے تو زیادہ مناسب ہو گا؛ یہ وہ دن ہے جو ہم ہر سال جوش و جذبے کے ساتھ بھرپور انداز میں مناتے ہیں، سکولوں میں بچوں سے تقریریں کرواتے ہیں، ان سے نغمے اور ٹیبلو پیش کرواتے ہیں اور آخر میں ایک جذباتی تقریر کر کے تقریب کا اختتام کر کے گھروں کو چل دیتے ہیں، کیا یہ سب کرنے سے کشمیر ہمیں واپس مل سکتا ہے؟

کشمیر جو کہ حسین پہاڑیوں، بہتی ندیوں، گنگناتے پھولوں سے سجی جنت جیسی وادی ہے، جس میں خوشیوں کا پہرا ہونا چاہیے تھا، آج وہاں روز لاشوں سے فرش کو سجایا جاتا ہے۔ آج اس کی ندیوں میں خون بہتا ہے، وہاں کے لوگوں کے دلوں میں خوف بسا ہے، ہر وقت ان کے دروازے پر موت دستک دیتی ہے۔

یہ وہی جنت نظیر کشمیر ہے جہاں بھوک سے بلکتے بچوں کو بندوق سے چپ کرایا جاتا ہے اور روٹی مانگنے پر گولیوں سے چھلنی کیا جاتا ہے۔ یہاں معصوم بچیوں کی عزتیں تار تار کی جاتی ہیں۔

یہ وہی جنت نظیر وادی ہے جہاں پیلٹ گن سے نشانے لگا لگا کر بینائی چھینی جاتی ہے، جہاں کرفیو لگا کر گھروں میں ہی قبریں کھودی جاتی ہیں، جہاں آذان دینے پر پابندی ہے، جہاں کسی خوشیوں بھرے تہوار کو منانے کی اجازت نہیں، جہاں عید پر بھی جنازے اٹھائے جاتے ہیں اور جہاں آزادی کے لئے آواز اٹھانے پر لڑکے گھروں سے اٹھائے جاتے ہیں۔

یہ منافق دنیا آزادی کی بات کرتی ہے اور انسانی حقوق کی علمبردار بنتی ہے لیکن صد افسوس یہاں بولنے کی آزادی، عورتوں کی آزادی، جنس تبدیل کرنے کی آزادی تو ہے لیکن زندہ انسانوں کو اپنی مرضی سے سانس لینے کی آزادی نہیں ہے۔

پاکستان اور آزاد کشمیر کے لوگ ہر سال لانگ مارچ، ریلیاں اور انسانی زنجیر بنا کر دنیا کو کشمیریوں پر ہونے والے ظلم کا احساس دلاتے ہیں لیکن انسانی حقوق کے ادارے ابھی تک جبر و بربریت کے شکار کشمیریوں کو انصاف دلانے کے قابل نہیں ہوئے ہیں۔

اقوام متحدہ کے سامنے پاکستان بار بار توجہ دلا چکا ہے لیکن اس مسئلہ کو عالمی طاقتیں مکمل نظرانداز کر چکی ہیں۔ کشمیر کے علاوہ فلسطین، شام، عراق بھی اسی تذبذب کا شکار ہیں اور ہم بحیثیت ایک عام شہری ان کے آزاد ہونے کی امیدیں چھوڑ چکے ہیں۔

مسئلہ کشمیر کا واحد حل حق خود ارادیت ہے جو کہ اقوام متحدہ خود تسلیم کر چکی ہے لیکن اس پر عمل درآمد کروانے سے قاصر ہے۔ عالم اسلام چاہے تو ایک صفحہ پر آ کر اقوام متحدہ سے کشمیریوں کا مسئلہ حل کروا سکتا ہے لیکن ہمارے اسلامی ممالک اس معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لیتے اور اپنے تجارتی مفادات کی وجہ سے بھارت کے خلاف نہیں جا سکتے۔

سوا کروڑ کشمیریوں کی آنکھیں انصاف کے علمبرداروں کی طرف ہیں کہ وہ ہمیں آزادی دلائیں گے۔ ہم کشمیر بنے گا پاکستان کا نعرہ تو ضرور لگا لیتے ہیں لیکن اپنی ملکی سیاست اور کرسی کے کھیل سے باہر نکل کر ان معاملات کو سنجیدگی سے حل کرنے کی سعی نہیں کرتے۔

پاکستان امن و امان، سیاسی اور اب معاشی مسائل کا شکار ہے ایسے میں کشمیریوں کی مدد کرنے کا جواز پیدا نہیں ہوتا لیکن سوا کروڑ کشمیریوں کے دل سے آزادی حاصل کرنے کا جذبہ ختم نہیں ہوا۔ بھارت کے جمہوری دن پر یوم سیاہ منا کر انھوں نے یہ پیغام دے دیا ہے کہ ان کے دل پاکستان کے لیے دھڑکتے ہیں۔ ہمت اور جنون ان کے خون میں شامل ہے۔ برہان وانی جیسا جذبہ شہادت رکھنے والے بچے گھر گھر میں پائے جاتے ہیں۔ کشمیر کا بچہ بچہ آزادی کے جذبے سے سرشار ہے۔ آزادی ان کا حق ہے جو کہ انھیں انسانی حقوق کی تنظیموں اور اقوام متحدہ سے تو نہیں مل سکا لیکن اگر اللہ چاہے تو ان کا حق انہیں ضرور مل کر رہے گا۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button