میں کون ہوں؟ فلاں کی بيٹی، بيوی، بہن، اور بس؟
عائشہ ایان
آج معمول کے مطابق جب ميں سونے سے پہلے ہاتھ منہ دھونے لگی تو سامنے لگے بيسن میں خود کو ديکھ کر ميں اک دم رک سی گئی، پانی ميرے ہاتھوں سے پھسل گیا۔۔۔ يک ٹک آئینے ميں نظر آنے والے عکس کو ديکھتی رہی، ديکھتی رہی اور بس ديکھتی رہی!
اک لمحے کے لئے مجھے کچھ سمجھ نہ آيا، پھر دھيرے دھيرے جب ميں نے غور کيا تو مجھے رئيالائز ہوا کہ ميں نے کتنے عرصے کے بعد خود کو اتنے غور سے ديکھا ہے، ميں حيران تھی کوئی خود سے اتنا عرصہ غافل کيسے رہ سکتا ہے؟
خير ان خيالات کو جھٹک کر، ہاتھ دھو کر جب ميں سونے لگی تو نا چاہتے ہوئے بھی دوبارہ وہی سب کچھ سوچنے لگی، مجھے اپنا عکس بہت انجان سا لگا، ميں سوچنے لگی کہ ميں کون ہوں، کيا ہوں؟
اگر ميں اپنے آس پاس لوگوں سے پوچھوں کہ ميں کون ہوں تو ان کا جواب کيا ہو گا؟ صرف ميرا نام؟ کيا سچ ميں ميرا صرف يہی تعارف ہے؟ یا فلاں کی بيٹی، بيوی، بہن۔۔۔ اور بس۔۔۔؟
يک دم مجھے اک عجیب سا خوف محسوس ہونے لگا، زندگی میں پہلی بار مجھے محسوس ہوا کہ میں تو کچھ بھی نہیں ہوں، میرے پاس میرا اپنا کچھ بھی نہیں ہے یہاں تک کہ میرے پاس میری خود کی پہچان بھی نہیں ہے۔ میں آج تک نجانے کس زعم میں مبتلا رہی، آج جب پہلی بار غور کیا تو مجھ پر اک بھیانک انکشاف ہوا کہ میں آج تک جس غلط فہمی میں مبتلا رہی ہوں وہ محض خوش فہمی ہے۔
یہ سب سوچ کر میری نیند غائب ہو گئی، اک دم میرا دل ہر چیز سے بیزار ہو گیا، مجھے لگا زندگی میں رکھا ہی کیا ہے، کیا یہ ہے زندگی؟
ساری زندگی اسی بھاگ دوڑ میں گزر جائے کہ کچھ بن جاؤں، نام کماؤں، پیسہ کماؤں، بس؟ کیا سچ میں بس یہی ہے زندگی؟
اچانک مجھے اپنے الماری کے دراز میں رکھے اپنے ڈھیر سارے سرٹیفیکیٹس یاد آ گئے جن کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ مجھے یاد بھی نہیں، حالانکہ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ وہ اک اک سرٹیفیکیٹ میں نے کتنی محنت سے حاصل کیا تھا، کتنی محنت کی تھی میں نے اک اک سرٹیفیکیٹ کے لئے اور اب مجھے ان کی تعداد تو کیا یہ بھی معلوم نہ تھا کہ میں نے آخری بار کب انہیں دیکھا تھا، اب مجھے وہ سب کچھ بچگانہ لگتا ہے۔
مجھے لگتا ہے جن چیزوں کی میں آج آرزو کر رہی ہوں کیا یہ بھی اک دن میرے لئے بے معنی ہو جائیں گے؟ کیا جن چیزوں کے لئے میں ابھی محنت کر رہی ہوں کیا سچ میں ایسا دن آئے گا کہ یہ سب میرے لئے عام ہو جائے گا؟ یہ سب سوچتے سوچتے نجانے کب مجھے نیند آ گئی اور میں نیند کی وادیوں میں چلی گئی۔
اگلی صبح میری آنکھ کھلی تو وہی کل والی باتیں میرے ذہن میں گردش کر رہی تھیں، وہی مایوسی والی باتیں دوبارہ میرے دماغ پے سوار ہونے لگیں، سب باتوں کو ذہن سے جھٹک کر میں نے وضو کیا، نماز پڑھی اور دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے تو مانگنے کے لئے میرے ذہن میں کچھ نہیں آیا، کچھ دیر میں ایسے ہی خالی ہاتھوں کو دیکھتی رہی، اچانک میرے منہ سے نکلا "یا اللہ! مجھے اپنی نعمتوں پر شکر ادا کرنے کی توفیق عطا فرما۔ آمین!”