”مہنگائی نے مارا، دہشت گردی کے ستائے ہوئے ہیں”
رانی عندلیب
ہمارے ملک کے لوگوں پر اللہ رحم فرمائے؛ عوام کو آدھا مہنگائی اور بے روزگاری نے مار ڈالا ہے، جو بچے ہیں یہ دہشت گردی کی آگ میں خدانخواستہ لقمہ اجل ہو جائیں گے۔
جب ہم چھوٹے تھے تو سال میں ایک یا دو دفعہ چیزوں کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا تھا؛ ایک بجٹ کے مہینے میں تو دوسری مرتبہ رمضان المبارک کے مہینے میں چیزیں مہنگی ہو جاتی تھیں۔ اور اس کا ہر خاص و عام کو پتہ ہوتا تھا لیکن پچھلے چند سالوں سے مہنگائی میں روزمرہ بنیادوں پر اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے، گرانی اپنے عروج پر اور اس طوفان نے ہر غریب کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔
دوسری جانب مہنگائی کو جوں توں کر کے برداشت کرنے والی اس عوام کو دہشتگردی کے عفریت نے الگ سے گھیر رکھا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال 30 جنوری کو پشاور کی پولیس لائن مسجد میں ہونے والا دھماکہ ہے جس میں اب تک 101 افراد شہید جبکہ دو سو سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔
یہ واقعہ پولیس لائن مسجد میں ظہر کی نماز کے وقت پیش ایا جب نمازی امام مسجد کی اقتدا میں تکبیر پڑھ رہے تھے، دھماکے میں شہید ہونے والوں میں پولیس کی بھی بڑی تعداد شامل ہے۔
اس دھماکے سے لوگوں میں وہی خوف و ہراس پیدا ہوا ہے جو ایک ڈیڑھ دہائی قبل لوگوں میں پایا جاتا تھا، اللہ جھوٹ نا بلوائے پر مجھے لگتا ہے کہ تب صرف دھماکے ہی ہوتے تھے، لوگوں میں اتنا خوف تھا کہ باہر جانے سے کتراتے تھے، بازار یا تفریحی مقامات تو ایک طرف لوگ مساجد تک کو نظر انداز کرتے تھے۔
اس کے بعد چند سالوں تک پاکستان اور خاص کر خیبر پختونخوا کے حالات نسبتاً پرامن ہو گئے تھے لیکن کچھ عرصہ سے پیش آنے والے پے بہ پے واقعات خاص کر پرسوں ترسوں کے اس دھماکے نے پھر وہی خوف و ہراس پھیلا دیا۔ وہی دور پھر سے دہرایا جا رہا ہے۔ اس وقت تو ہم چھوٹے تھے لیکن اب کی بار ہم وہ دور دوبارہ نہیں چاہتے۔