سیاستکالم

مطالعہ پاکستان سے ہٹ کر۔۔!

ڈاکٹر محمد ہمایون ہما

لو جی پشتو محاورے کے مطابق صبح کی آذان میں ایک نئی بات۔۔ بجلی کی بچت کے طور طریقوں کو نصاب میں شامل کرنے کا عندیہ! اب انشاءاللہ ملک میں بجلی کا بحران ختم ہو جائے گا اور وہ جو %80 بجلی چوری کا رونا روتے ہیں نصاب میں اس کا ازالہ ہو جائے گا۔

پشتو میں ایک کارندہ طبقے کی سادگی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اگر ان سے کوئی نئی غلطی سرزد نہ ہوتی تو لوگ ان کے پرانے کارنامے یاد نہ کرتے۔ حکومت بھی اسی طبقے کے نقش قدم پر چل پڑی ہے۔

اب کچھ مزید نصابی باتیں۔ قدرت اللہ شہاب کی خودنوشت شہاب نامہ ہماری پسندیدہ کتاب ہے، یہ الگ بات ہے کہ وہ کئی سال تک ایک آمر کا مشیر خاص بن کر ان کے کارناموں کے ترجمان بنے رہے؛ لکھتے ہیں کہ جب ملک بنا تو ہم بڑی تنگدستی کے عالم میں تھے، دفاتر میں پیپر پن تک ناپید تھے اور ہم ببول کے کانٹے استعمال کرتے تھے، پاکستان کا پہلا بجٹ تیار کرنے میں وزارت خزانہ کو شدید مشکلات کا سامنا تھا، یہ تو خدا بھلا کرے ثروت مند صنعتکاروں کا کہ انہوں نے بجٹ کے لیے فنڈز فراہم کیے اور حکومت سرکاری ملازمین کو تنخواہیں دینے کے قابل ہو سکی، اور پھر دیگر ترقیاتی اور غیرترقیاتی کاموں کے لیے رقم فراہم ہو سکی۔ یہ واقعی یہی صورتحال تھی۔ شہاب صاحب تو یہی فرما گئے ہیں اور مطالعہ پاکستان میں بھی اس کے اشارے ملتے ہیں۔

حال ہی میں ایک پنشن یافتہ بیوروکریٹ محمد سعید کی ایک کتاب ‘پاکستان’ منظر عام پر آئی ہے۔ یہ ہمارے سامنے پڑی ہے۔ کتاب کے مصنف نے بڑی عرق ریزی سے پاکستان کے قیام سے پہلے ایک سال کے اخباروں کے تراشے کتاب میں شامل کیے ہیں، یہ تراشے پڑھ کر ہم سوچتے ہیں کہ یہ باتیں مانیں یا پھر وہ سچ ہیں جو قدرت اللہ شہاب کی وساطت سے ہم تک پہنچی ہیں اور کچھ مطالعہ پاکستان میں ہمیں پڑھائی جاتی ہیں۔

ہم دفاتر میں ببول کے کانٹے استعمال کرتے تھے۔ صنعتکاروں نے بجٹ کے لیے فنڈز فراہم کیے تھے مگر ان تمام مشکلات کے باوجود حکومت نے تین لاکھ روپے کے ایرانی قالین خریدے جو وزراء کے بنگلوں اور سیکرٹریوں کے دفاتر میں پہنچا دیے گئے۔

واضح رہے کہ پاکستان میں شامل ایک اخباری تراشے کے مطابق اس وقت سونا 108 روپے تولہ تھا۔ اس حساب سے قالینوں کی قیمت آج ایک ارب سے زیادہ بنتی ہے۔

اور اب فاقہ مستی کا ایک دوسرا نمونہ ملاحظہ کیجئے اور دیکھئے کہ ایک نوزائیدہ ملک کے حکمرانوں کی اس وقت ترجیحات کیا تھیں!

کراچی کلفٹن پر چار لاکھ روپوں کی لاگت سے ایک ایکویریم (مچھلی گھر) تعمیر کیا جائے گا جو اپریل 1948 تک مکمل ہو جائے گا۔ ضیافتوں کا سلسلہ بھی جاری تھا۔

قیام پاکستان کی تقریبات کے سلسلے میں کراچی میں 15 اگست 1948 کو ایک ہزار لوگوں کے کھانے کا اہتمام کیا جائے گا۔ اس کا فیصلہ ایک سب کمیٹی نے کیا جس کی صدارت مسٹر جمشید جی نسروان نے کی۔

تصویر کا یہ رخ بھی ملاحظہ کیجئے کہ جب پاکستان کے بانی کو نیم بے ہوشی کے عالم میں کراچی کے ایئرپورٹ پر اتارا گیا اور ان کو جس گاڑی میں ڈالا گیا ڈاک روڈ پر ایک بستی کے قریب وہ گاڑی خراب ہو گئی، کوئی دوسری گاڑی ساتھ نہ تھی تاکہ بانی پاکستان کو اس میں سوار کیا جا سکے، شدید گرمی کے عالم میں یہ گاڑی روڈ کے کنارے کھڑی رہی۔گاڑی میں موجود نرس ان کے چہرے پر ایک گتہ ہلا رہی تھی۔ فاطمہ جناح قریب بیٹھی ان کی کسمپرسی پر آنسو بہا رہی تھی۔ دوسری گاڑی آ گئی، کتنے گھنٹے بعد۔۔ راوی اس بارے میں خاموش ہے۔

ہمیں مطالعہ پاکستان میں بتایا گیا ہے کہ بانی پاکستان کو عزت و احترام سے دفن کیا گیا۔ جی! ضرور کیا گیا اور آج وہ ایک عظیم الشان مقبرے میں دفن ہیں لیکن ان کی تدفین سے پہلے وہ صورتحال تھی جو بیان کر دی گئی۔

بقول یاسر پیرزادہ یہ کتاب پڑھ کر اندازہ ہو رہا ہے کہ ہم کسی اور ہی عہد میں زندہ ہیں۔ ماضی کا جو نقشہ ہمارے ذہنوں میں نصابی کتابوں نے بنا رکھا ہے حقیقت حال سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔

اس وقت 1947 سے آج 2023 تک ہماری ہر حکومت کیسی شاہ خرچیوں میں مصروف ہے۔ جانے کب ہم مطالعہ پاکستان سے نکل کر نئی نسل کو ایک آزاد فضا میں سانس لینے کا موقع فراہم کریں گے۔

ڈاکٹر محمد ہمایوں ہما کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ پی ٹی وی کے سنہری دور کا ایک چمکتا دمکتا ستارہ ہیں، وہ ایک شاعر، ادیب، کالم نگار اور سب سے بڑھ کر ایک استاد ہیں۔ قلم و کتاب سے ان کا رشتہ کافی پرانا ہے اور آج کل دل کا غبار و بھڑاس نکالنے کیلئے ان سطور کا سہارا لیتے ہیں۔
Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button