بلاگزسیاست

مزاحمت کی علامت لطیف آفریدی کی توانا آواز خاموش کر دی گئی

محمد بلال یاسر

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر لطیف آفریدی کو پشاور ہائی کورٹ کے بار روم میں گولی مار کر قتل کر دیا گیا۔ سینئر وکیل کو پشاور کے لیڈی ریڈنگ ہسپتال منتقل کیا گیا لیکن ہسپتال انتظامیہ کا کہنا تھا کہ سینئر وکیل پہنچتے ہی دم توڑ چکے تھے۔ ہسپتال انتظامیہ کے مطابق لطیف آفریدی کو 6 گولیاں لگیں۔ پولیس کے مطابق حملہ آور ان کی تحویل میں ہے۔ اس کی شناخت عدنان کے نام سے ہوئی ہے۔

ابتدائی زندگی

عبداللطیف آفریدی جنہیں لطیف لالا کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، ایک وکیل اور پشتون قوم پرست سیاست دان تھے جو سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن آف پاکستان کے پہلے پشتون صدر تھے۔ عبداللطیف آفریدی 1943 میں خیبر ایجنسی کے علاقے تیراہ میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے 1966 میں پشاور یونیورسٹی سے ماسٹرز کیا۔ دو سال بعد اسی ادارے سے ایل ایل بی کیا۔ انہیں 1964 کے صدارتی انتخابات میں فاطمہ جناح کی حمایت کرنے پر یونیورسٹی سے نکال دیا گیا تھا۔

سیاسی کیریئر

1979 میں لطیف آفریدی نے غوث بخش بزنجو کی زیر قیادت پاکستان نیشنل پارٹی (PNP) میں شمولیت اختیار کی اور اس کے خیبر پختونخوا کے صوبائی صدر بن گئے۔ 1986 میں جب PNP کو عوامی نیشنل پارٹی (ANP) میں ضم کر دیا گیا تو لطیف آفریدی اس کے پہلے صوبائی صدر بنے۔ 1997 میں این اے 46 سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔

2 ستمبر 2019 کو لطیف آفریدی کی رکنیت پارٹی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان نے عوامی نیشنل پارٹی سے ختم کر دی جس کے بعد یکم ستمبر 2021 کو آفریدی نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ (NDM) کے بانی رکن بن گئے، این ڈی ایم کے سنیئر قائدین میں لطیف آفریدی کا شمار ہوتا تھا۔ وہ پشتون تحفظ موومنٹ (PTM) کے حامی بھی رہے اور انہوں نے پی ٹی ایم رہنما ایم این اے علی وزیر کیس کی پیروی بھی کی۔

وکلاء کی تحریک

لطیف آفریدی پشاور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن (PHCBA) اور اے این پی لائرز ونگ کے سابق صدر ہونے کے ساتھ ساتھ پارٹی کے خیبر پختونخوا چیپٹر کے نائب صدر بھی تھے۔ چار بار پی ایچ سی بی اے کے صدر منتخب ہوئے، وہ اس وقت پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین اور پاکستان پشاور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر تھے۔ انہوں نے 2007 میں وکلاء تحریک کے حامی کے طور پر شہرت حاصل کی۔

لطیف آفریدی 30 اکتوبر 2020 کو 1,236 ووٹ لے کر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن آف پاکستان کے صدر منتخب ہوئے جبکہ ان کے حریف امیدوار ستار خان 968 ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ وہ وکلاء کی اس تحریک میں سب سے آگے رہے جس کا اختتام چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی بحالی پر ہوا۔

لطیف لالا مزاحمت کی علامت کے طور پر شمار ہوتے تھے، انہوں نے ہمیشہ باطل قوتوں کو سرعام للکارا، ہر مخالف کو انہوں نے بہترین اور مدلل جواب دیا اور ہمیشہ ہی مظلوم طبقے کیلئے امید کی آخری کرن ثابت ہوئے۔ اللہ ان کی قبر پر کروڑہا رحمتیں نازل فرمائے اور ان کی خطائیں معاف فرمائے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button