چارسدہ: 60 سالہ پتاسہ بی بی کی زندگی کا واحد سرمایہ بھی چھن گیا
طیب محمدزئی
چارسدہ کے علاقے خیالی منظوری کی رہائشی 60 سالہ پتاسہ بی بی اپنے گھر کے اس کمرے میں جھاڑو لگا رہی ہیں جس میں وہ اپنی بھینس باندھ کر رکھتی تھیں اور وہی بھینس ان کا کل سرمایہ حیات تھی لیکن گزشتہ سال سیلاب کے دوران ان کی زندگی کا یہ واحد سرمایہ بھی چھن گیا۔
مٹی سے بنے اپنے کچے مکان میں رہائش پذیر پتاسہ بی بی کہتی ہیں کہ بھینس کے سیلاب میں بہہ جانے کے بعد ان کی زندگی ٹھہر سی گئی ہے اور اب اپنے بیمار شوہر کے علاج معالجے کیلئے امداد کی راہ تک رہی ہیں کیونکہ ان کے بیٹے ان سے الگ ہو چکے ہیں جنہیں خود بھی بے روزگاری کا سامنا ہے، ”ہمارا یہ نقصان ہوا ہے کہ سیلاب آیا اور ہماری ایک ہی بھینس تھی اور وہ بھی چلی گئی، بیٹے سارے ہم سے الگ ہو چکے ہیں، یونہی بے آسرا رہ گئے ہیں اور ایک دھیلہ بھی اپنے پاس نہیں ہے، لکھ کر دیا ہے لیکن ہمیں پیسے نہیں دیئے، بس یہی ایک بھینس تھی جو ڈوب گئی اور ہم بے آسرا رہ گئے، خاوند میرا یونہی گھر بیٹھا ہے، بیمار ہے اور بینائی سے محروم ہے محنت مزدوری کا نہیں ہے، خود کہیں خدمت گزاری کر لیتی ہوں، رضائیاں وغیرہ سی لیتی ہوں اور بس اسی سے روزگار چل رہا ہے، بیٹے تو سارے جدا ہو گئے ہیں اور وہ خود بھی سبھی بے روزگار ہیں۔”
ان کا کہنا ہے کہ وہ بھینس ان کے گھر کی آمدن کا بڑا زریعہ تھی جو روزانہ پانچ چھ سیر دودھ دیتی تھی جسے بیچ کر وہ اپنی ضرورتوں کو کسی نا کسی حد تک پورا کر لیتی تھیں لیکن سیلاب نے انہیں اپنے اس واحد زریعہ آمدن سے بھی محروم کر دیا۔
بقول ان کے حکومت نے انہیں بکریاں دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن تاحال انہیں کوئی ایک چیز بھی نہیں دی گئی ہے، ”بھینس کا دودھ ہم بیچتے تھے اور اسی سے کام چلا رہے تھے، مطلب پانچ چھ سیر دودھ دیتی تھے اور اسے ہم بیچتے تھے اور اسی سے ہمارا گزارہ چل رہا تھا، اب حال ہمارا یہ ہے کہ محنت مزدوری نہیں ہے، لڑکے بھی سارے یونہی بیٹھے ہوئے ہیں، سارے ہم سے جدا بھی ہو چکے ہیں اور ہمارا بھی آسرا ایک اللہ ہی ہے، حکومت نے ہم سے کہا تھا کہ بھیڑ بکریاں، مویشی وغیرہ دیں گے لیکن ابھی تک دیئے نہیں، لکھا تو ہے لیکن دیئے نہیں۔”
قدرتی آفات سے نمٹنے کے صوبائی ادارے پی ڈی ایم اے کی رپورٹ کے مطابق سیلاب کی وجہ سے صوبہ بھر میں لاکھوں مویشی متاثر ہوئے اور چارسدہ میں بھی سینکڑوں مویشی ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں۔
محکمہ لائیوسٹاک چارسدہ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر مومن کے مطابق سیلاب نے ضلع میں بکریوں، بھیڑوں، گائے بھینسوں اور پالتو مرغیوں کو نقصان پہنچایا ہے، سیلاب کے دوران مویشیوں کے تحفظ کیلئے مختلف علاقوں میں ٹیمیں بھیجی گئی تھیں، ”اس میں تقریباً ایک لاکھ جانور متاثر ہوئے تھے، ان میں 16 بکریاں، 14 بھیڑ، 22 بھینسیں، 76 گائے اور 4 ہزار 30 پالتو مرغے مرغیاں سیلاب بہا کر لے گیا تھا، اور یہ جو کمرشل پولٹری فارمز ہیں تو ان میں 35 ہزار 450 سیلاب بہا کر لے گیا تھا، اور یہ جو لوگوں کے نجی پولٹری فارمز ہیں ان میں سے نو کو سیلاب نے متاثر کیا تھا، اور جو ایک لاکھ مویشی متاثر ہوئے تھے ان کے لئے چارہ نہیں تھا، کچھ بھی نہیں تھا، پانی بھی نہیں تھا، ہم نے آٹھ ٹیمیں بنائی تھیں جو ہر ایک یونین کونسل میں جاتی تھیں اور جانوروں کو ویکسین کرواتی تھیں، خاص طور پر جب سیلاب آتا ہے تو ہم اسے ”گوٹہ” (بیماری کا نام) کہتے ہیں جو پلک جھپکتے جانور کو ہلاک کر دیتی ہے تو ہم نے تقریباً 50 جانوروں کو اس کی ویکسین کروائی تھی، اور اس وقت جو دوسری بیماری چل رہی تھی، ایل ایس ڈی، تو اس میں ہم نے تقریباً 3 ہزار 5 سو جانوروں کو ویکسین لگوائی تھی۔”
ان کا کہنا ہے کہ حکومت نے انہیں متاثرہ مویشیوں کے مالکان کے ساتھ امداد کیلئے فارمز دیئے ہیں جن میں متاثرہ لوگوں کے نام درج ہیں اور امید ہے کہ حکومت ان کے ساتھ کچھ نا کچھ امداد ضرور کرے گی۔
دوسری جانب ماہرین کا کہنا ہے کہ سیلاب کی وجہ سے جانوروں کو پہنچنے والے نقصان کے باعث صوبہ بھر میں گوشت اور دودھ کی قلت سامنے آئی ہے اور اس کے ساتھ ان سے وابستہ روزگار پر بھی برے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
جامعہ پشاور میں اقتصادی امور کے ماہر پروفیسر ڈاکٹر ذلاکت خان کا کہنا ہے کہ اس کمی کو پورا کرنے کیلئے حکومت کو چاہئے کہ متاثرہ لوگوں کو بینک سے قرضے دلوائے جس سے یہ لوگ ایک بار پھر اپنے مویشی اور لائیوسٹاک کی دیگر ضروریات پوری کر سکیں، ”ایک بڑا نقصان تو لائیوسٹاک سے جو پیداوار ہم حاصل کرتے ہیں تو وہ گوشت کا ہے کیونکہ پاکستانی ایک گوشت خور قوم ہے، اور دوسرا جو ہے وہ دودھ کا ہے، تو جو تخمینے لگائے گئے ہیں وہ 30 تا 40 فیصد بتاتے ہیں کہ دودھ اور گوشت کی پیداوار میں کمی آ رہی ہے، اس میں جو سب سے بڑا کردار ہے تو اس میں بینکنگ سیکٹر کو چاہئے کہ وہ آگے آئے اور لوگوں کو آسان شرائط پر قرضے فراہم کرے۔”
یاد رہے کہ گزشتہ سال آنے والے سیلاب سے قبل متعدد جانور لمپی سکن بیماری کی وجہ سے بھی متاثر ہوئے تھے اور سینکڑوں گھرانے مویشیوں کی ہلاکت کے باعث نقصان سے دوچار ہوئے تھے۔