سنوفال جائیں تو کون سی احتیاطی تدابیر اپنائیں؟
حمیرا علیم
لاہور اور اسلام آباد کے رہائشی دسمبر اور جنوری میں برفباری سے لطف اندوز ہونے کے لیے مری کا رخ کرتے ہیں۔ دسمبر سے مارچ تک مری میں سیاحوں کا رش ہوتا ہے اور یہ ٹورازم کا پیک ٹائم ہوتا ہے۔
اگرچہ مری میں عام دنوں میں بھی ہوٹلز، گیسٹ ہاوسز اور اِنز کے کرائے اور اشیائے ضرورت بہت مہنگی ہوتی ہیں لیکن ان چند مہینوں میں تو ان کی قیمتوں کو پر لگ جاتے ہیں۔ لیکن ہمارے ملک کی غریب عوام جو بجلی، گیس کے بلز اور آٹے چینی کی روز بروز بڑھتی قیمتوں سے نالاں نظر آتی ہے وہی عوام مری اور نادرن ایریاز کی سیر کے لیے یوں جوق در جوق جاتی ہے جیسے ہم مسلمان خشوع و خضوع سے حج کے لیے جاتے ہیں۔
گذشتہ برس سات جنوری کو مری میں شدید برفباری میں پھنس جانے سے گاڑیوں میں خواتین اور بچوں سمیت 20 سے زیادہ سیاحوں کی ہلاکت کا واقعہ پیش آیا تھا۔ اس حادثے کے بعد غیرمقامی افراد کے مری میں داخلے پر کچھ عرصے کے لیے پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ سیاحوں کی ہلاکت کی وجوہات جو بھی رہی ہوں لیکن حکام کا کہنا ہے مری جیسے پہاڑی علاقے میں جہاں محض تین ہزار گاڑیوں کے داخلے کی گنجائش ہے وہاں ضرورت سے زیادہ سیاحوں کا رش کسی بھی بڑی مشکل صورتحال کا سبب بن سکتا ہے خصوصاً برفباری میں۔ گذشتہ برس بھی برفباری کی اطلاع موصول ہونے کے بعد گنجائش سے کئی ہزار زیادہ گاڑیاں مری میں داخل ہوئی تھیں۔
کسی بھی جگہ کی سیر کرنے اور تفریح کے لیے جانے میں کوئی حرج نہیں مگر سیاحوں کو گھر سے ہنگامی حالات کے لیے تیار ہو کر جانا چاہیے۔ ہم جب بھی کسی مقام پر تفریح کی غرض سے جاتے ہیں تو موسم کی مناسبت سے کپڑے، جوتے، پانی، کھانا، اسنیکس اور فرسٹ ایڈ کٹ ضرور گاڑی میں رکھتے ہیں۔ اس سب کے ساتھ ساتھ چند اور احتیاطی تدابیر بھی لازم ہیں۔
کسی بھی سیاحتی مقام پر جانے سے پہلے یا وہاں پہنچنے کے فوری بعد وہاں کے ریسکیو حکام اور ہنگامی امدادی اداروں کے رابطہ نمبرز احتیاطاً حاصل کر لیں تاکہ بوقت ضرورت مدد طلب کی جا سکے۔ دوران برفباری گلیات کا سفر کرنے سے گریز کریں لیکن اگر کسی کو سفر کے دوران برفباری کا سامنا ہو تو احتیاطی اقدامات ضرور کرنے چاہئیں۔ سیاح اپنی گاڑی کے پہیوں پر زنجیر (چین) باندھ کر سفر کریں تاکہ گاڑی برف پر نہ پھسلے۔ اگر گاڑی فرنٹ وہیل ڈرائیو ہے تو یہ زنجیر سامنے والے پہیوں پر اور اگر بیک وہیل ڈرائیو ہے تو پچھلے پہیوں پر لگانی چاہیے۔
اپنے ساتھ زنجیر لے کر آئیں یہ عام دستیاب ہے اس کی قیمت ایک ہزار سے لے کر پندرہ سو تک ہے۔ اگر یہ اپنے ساتھ نہیں لائے تو یہ زنجیریں گلیات میں مختلف مقامات پر کرائے پر بھی دستیاب ہیں۔ برفباری کے بعد سڑک پر سے برف ہٹا بھی دی گئی ہو تو بھی پھسلن ختم نہیں ہوتی اس لیے جب کوئی بھی سیاح اپنی گاڑی پر ایسے علاقوں کا رخ کرے تو اپنی گاڑی کو پہلے گیئر میں رکھے۔ بار بار بریک استعمال کرنے سے گریز کریں، ٹائروں کو کم رفتار میں گھومنے دیں کیونکہ اس سے پھسلن کا خدشہ کم ہو جاتا ہے۔ ڈھلوان پر انجن اور گیئر کی طاقت استعمال کریں اور ایکسیلیٹر سے گاڑی کی رفتار کو معتدل رکھیں۔ گاڑیوں کے ٹائروں میں ہوا کم رکھیں۔ کمزور ٹائر اور گاڑی استعمال نہ کی جائے جبکہ گاڑی میں ایندھن پورا ہونا چاہیے۔
راستے میں کسی بھی مقام پر برفباری سے لینڈ سلائیڈنگ کا خطرہ موجود رہتا ہے اس لیے گرم کپڑے، خشک خوراک وغیرہ ساتھ رکھیں۔ اگر بچوں اور خاندان کے ہمراہ سفر کر رہے ہیں تو ان کی ضرورت کی تمام اشیاء گاڑی میں ہر وقت موجود ہونی چاہئیں۔ بالفرض محال سیاح برف میں پھنس جائیں تو گاڑی کے کسی شیشے کو تھوڑا سا کھلا رکھیں تاکہ آپ آکسیجن کی کمی کا شکار نہ ہوں۔
کسی بھی حادثے سے بچنے کا بہترین حل تو یہ ہے کہ اس نوعیت کے موسمی حالات میں غیرضروری سفر سے جتنا ممکن ہو اجتناب کریں لیکن ہر کوئی میری طرح احتیاط پسند نہیں ہوتا کہ موسم کی شدت کے پیش نظر ہیٹر لگے کمرے میں بیٹھ جائے۔ کچھ ایڈونچر پسند ایسے موسم میں گھر بیٹھنا کفران نعمت سمجھتے ہیں۔ ایسے ایڈونچرس لوگ عیدین پر بھی گھر میں ٹک کر نہیں بیٹھتے اور کراچی سے کوئٹہ یا لاہور اسلام آباد سے مری پہنچ جاتے ہیں۔
مجھے یاد ہے کہ عیدالاضحٰی پر میری نند کے بچے کراچی سے کوئٹہ آئے ہوئے تھے، عید کا دوسرا دن تھا انہوں نے زیارت جانے کا پروگرام بنایا جو کہ کسی وجہ سے پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکا۔ شام میں ہم سب لان میں بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف تھے جب نند کے بڑے داماد کو ایک کال موصول ہوئی جس پر یہ اندوہناک خبر ملی کہ ان کے چند دوست جو کہ عید کی نماز پڑھ کر زیارت آئے تھے ایک بم دھماکے میں ہلاک ہو گئے۔ بچوں نے اللہ تعالٰی کا شکر ادا کیا کہ وہ زیارت نہیں گئے ورنہ شاید ہمارے گھر میں بھی صف ماتم بچھی ہوئی ہوتی۔
گزشتہ جنوری میں مری جانے والے اور زیارت میں عید بسر کرنے کے خواہشمند لوگوں کی اموات اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ جہاں موت آنی ہو بندہ وہاں پہنچ ہی جاتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ انسان اس حقیقت کو ذہن میں رکھ کر اپنے گھر میں ہی بند ہو کر رہ جائے یا اڑتے جہاز سے بناء پیراشوٹ کود جائے کہ موت کا وقت و مقام مقرر ہے، احتیاط لازم ہے اس لیے اپنا اور اپنے گھر والوں کا خیال رکھیے۔
سب سے بڑی تفریح اور آرام اپنے خاندان کے ساتھ مل بیٹھنا ہے، اس کے لیے کسی سیاحتی مقام پر جانا بالکل بھی ضروری نہیں اس لیے چھٹیوں میں مکمل آرام کیجئے اور حادثات سے محفوظ رہیے۔