مہنگائی: ذمہ دار کون، پی ڈی ایم یا پی ٹی آئی؟
محمد فہیم
خیبر پختونخوا سمیت ملک بھر کو مہنگائی نے اپنی لپیٹ میں لے لیا، کچھ سمجھ نہیں آ رہی کہ آخر اتنی مہنگائی اچانک سے کیسے آ گئی، حکومتیں بھی بے بس ہیں اور انتظامیہ بھی بے بس ہے لیکن مہنگائی کے اس تمام شور میں کوئی یہ سوچنے کی کوشش ہی نہیں کر رہا کہ اس مہنگائی کا سب سے زیادہ فائدہ کس کو پہنچ رہا ہے؟
اگر خیبر پختونخوا کی بات کی جائے تو خیبر پختونخوا میں آٹے اور مرغی سمیت تمام اشیائے خوردونوش کی قیمتیں مسلسل بڑھتی جا رہی ہیں جبکہ صوبائی حکومت اور ضلعی انتظامیہ کو سانپ سونگھ گیا ہے، ان قیمتوں کو کنٹرول کرنے کیلئے اب تک کوئی لائحہ عمل بھی مرتب نہیں کیا گیا ہے۔ دوسری جانب پی ٹی آئی کی جانب سے تمام ذمہ داری وفاقی حکومت پر عائد کر دی گئی ہے اور وفاقی حکومت نے بھی مہنگائی کنٹرول کرنے کیلئے حکمت عملی مرتب کرنے اور ذمہ داری تفویض کرنے کی بجائے صرف سیاسی جنگ ہی جاری رکھی ہے جس سے عوام براہ راست متاثر ہو رہے ہیں۔
خیبر پختونخوا حکومت کے ارکان کابینہ سمیت پی ٹی آئی کے تمام رہنما اور سوشل میڈیا ٹیم نے مہنگائی کا ذمہ دار وفاقی حکومت کو قرار دے دیا ہے، صوبے میں آٹے کی مسلسل بڑھتی قیمت اور مرغی کی قیمت میں اضافہ کو کنٹرول کرنے کیلئے اقدامات اٹھانے کی بجائے پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا اکاﺅنٹس سے مہنگی قیمتیں شیئر کی جا رہی ہیں اور یہ بیانیہ بنایا جا رہا ہے کہ مہنگائی صرف اس لئے آئی کیونکہ عمران خان وزیر اعظم نہیں ہے۔ پی ٹی آئی صوبے میں حکمران ہے تاہم صوبے میں جاری مہنگائی کی لہر کی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں ہے۔
دوسری جانب بیوروکریسی نے بھی آنکھیں موند لی ہیں جبکہ ان پر صوبائی حکومت کی نظر بھی نہیں ہے؛ مسلم لیگ اور پی ٹی آئی کی سیاسی جنگ میں مہنگائی کا ایندھن استعمال کیا جا رہا ہے جس کا براہ راست اثر عوام پر پڑ رہا ہے، شہری کئی کئی گھنٹے پشاور، مردان، چارسدہ، سوات، بونیر، کوہاٹ، ڈی آئی خان، لکی مروت، ہنگو، کرک، چترال، ہری پور، مانسہرہ، ایبٹ آباد اور دیگر شہریوں میں کھڑے رہتے ہیں تاہم صوبائی حکومت ان کی مشکل کم کرنے کیلئے اقدامات کی بجائے وفاق پر ذمہ داری عائد کر رہی ہے۔
افسر شاہی صرف فوٹو سیشن تک محدود
خیبر پختونخوا کی بیوروکریسی صوبے میں جاری گرانفروشی کی روک تھام میں مکمل طور پر ناکام ہو گئی ہے؛ ڈپٹی کمشنر کو 24 انتظامی محکموں کا اختیار دینے سے صوبائی حکومت کیلئے مسائل کھڑے ہو گئے ہیں اور ضلعی انتظامیہ قیمتوں کے کنٹرول میں بے بس دکھائی دے رہی ہے۔
صوبائی حکومت کی جانب سے ڈپٹی کمشنرز، ایڈیشنل ڈپٹی کمشنرز، اسسٹنٹ کمشنرز اور ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنرز کو 24 انتظامی محکموں کا اختیار دیا گیا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ ضلع میں تمام ترقیاتی امور کی نگرانی اور مالی اختیارات بھی ضلعی انتظامیہ کو حاصل ہیں جبکہ اضلاع کی سطح پر ہر اہم فیصلہ سازی میں ڈپٹی کمشنر ہی فیصلہ ساز ہیں، ان تمام اختیارات کے باعث ضلعی انتظامیہ اپنی کلیدی ذمہ داری ادا کرنے سے محروم رہ گئی ہے۔
تمام اضلاع میں اشیائے خوردونوش کی قیمتوں کا تعین اور اس پر عمل درآمد کرانا ضلعی انتظامیہ کی ذمہ داری ہے تاہم تمام اضلاع میں ڈپٹی کمشنرز سمیت تمام متعلقہ افسران دفاتر میں بیٹھ کر فیصلے کرتے ہیں اور سارا دن اجلاسوں میں ہی گزر جاتا ہے۔ انتظامی افسران چند ایک مقامات پر کروڑوں مالیت کی گاڑی میں سکواڈ کے ساتھ جا کر چھاپہ مار کے فوٹو سیشن کر کے سوشل میڈیا کی زینت بھی بن جاتے ہیں تاہم عملی طور پر صوبے کے کسی بھی ضلع میں قیمتوں کا نہ تعین درست انداز میں کیا جاتا ہے اور نہ ہی اس پر عمل درآمد کیلئے کوئی طریقہ کار موجود ہے جس کے باعث شہریوں کو بازار کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔
ماضی میں مجسٹریٹی نظام کے تحت پورے ضلع میں مہنگائی کنٹرول رہتی تھی تاہم اب ضلعی انتظامیہ صرف دعوؤں تک ہی محدود ہے۔ چیف سیکرٹری کی سربراہی میں مہنگائی کے حوالے سے ہونے والے اجلاس میں بھی انہیں بتایا گیا کہ صوبے میں تمام قیمتیں کنٹرول اور آٹا کی قیمت قابو ہے تاہم جس دفتر میں یہ بریفنگ دی گئی وہاں سے چند منٹ کی مسافت پر اشرف روڈ ہے جہاں شہریوں کی قطاریں اس بریفنگ کا منہ چڑا رہی ہیں۔
قیمتوں کے تعین کا غیراعلانیہ اختیار مارکیٹ کے سپرد
خیبر پختونخوا میں اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافہ کی نئی روایت پروان چڑھ رہی ہے، ماضی میں مہینے بعد یا پھر ششماہی قیمتوں میں اضافہ کیا جاتا تھا تاہم اب ہر گزرتے لمحے کے ساتھ قیمتوں میں اضافہ کیا جا رہا ہے جس نے عوام کو دوہری پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے۔
پشاور سمیت صوبہ بھر میں گزشتہ دو ہفتوں کے دوران روزانہ مرغی کی فی کلو قیمت میں اضافہ ہو رہا ہے اور ایک ہفتے میں یہ ہر نئے دن تاریخ کی نئی بلند ترین سطح پر پہنچ جاتی ہے، ماضی میں پشاور میں مرغی کی سب سے زیادہ قیمت فی کلو 330 روپے ریکارڈ کی گئی تھی جو اب 410 روپے ہو گئی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ پشاور میں سب سے مہنگی روٹی 130 گرام 20 روپے کی میسر تھی تاہم اب پشاور میں 140 گرام روٹی کی قیمت 30 روپے کر دی گئی ہے جبکہ 200 گرام روٹی 40 روپے میں فروخت کی جا رہی ہے۔ اسی طرح آٹے کی قیمت کو دیکھا جائے تو اس میں بھی استحکام نہیں ہے، صبح مارکیٹ میں آٹے کا 20 کلو سپر فائن تھیلا 2 ہزار 850 کا میسر ہو گا تو عصر تک اس کی قیمت میں دو سے تین سو روپے اضافہ ہو جائے گا۔
قیمتوں میں غیریقینی اور غیرمتوقع اضافہ نے شہریوں کو شدید مشکلات سے دوچار کر دیا ہے، قیمتوں کا اضافہ اب صبح اور شام کے ساتھ ہو رہا ہے، سبزیوں اور پھلوں کے نرخ بھی صبح اور شام الگ الگ ہوتے ہیں، ضلعی انتظامیہ کے ملازمین چند ایک مقامات پر چھاپے مارتے ہیں اور نرخ کا جائزہ لیتے ہیں، شام ڈھلتے ہی ریڑھی بانوں کی مرضی ہوتی ہے اور وہ من مانے نرخ پر پھل اور سبزیوں کی فروخت کرتے ہیں، خیبر پختونخوا کی ضلعی انتظامیہ اس حوالے سے پرائس کنٹرول کمیٹی کو فعال نہیں کر رہی جس کے باعث قیمتیں مارکیٹ کے رحم و کرم پر ہیں۔