سیلاب 2022: کوئٹہ کے ھنہ اوڑک میں آباد لوگ آج بھی مشکلات سے دوچار
محب اللہ خان
سیلاب اور بارشوں کو چار ماہ سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے تفریحی مقام ھنہ اوڑک میں آباد لوگ آج بھی مشکلات سے دوچار اور حکومتی امداد کے لئے چشم براہ ہیں۔
مون سون کی بارشوں اور سیلاب نے کوئٹہ کے اسی ھنہ اوڑک کو سب سے زائد متاثر بھی کیا ہے اور چار ماہ سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود میلے یا تفریح کے مقام کو بحال نہیں کیا جا سکا ہے۔
ھنہ اوڑک کے ایک مکین احمد خان کے مطابق موسم بہت سرد ہے جبکہ حکومت کی جانب سے تاحال ان کے ساتھ کسی قسم کی امداد بھی نہیں کی گئی، حکومت نے جتنے بھی وعدے اور دعاے کئے ہیں ان میں سے تاحال کوئی ایک بھی پورا نہیں کیا جا سکا ہے، ”کچھ عرصہ پہلے یہاں جو سیلاب آیا تھا، اس سیلاب میں ہمارے باغات، ہمارے گھر، اور ہماری زمیں ساری تباہ ہو گئیں، ہمیں بڑی سخت قسم کی مشکلات درپیش ہیں، یہاں حکومت نے جو وعدے اور دعوے کئے تھے، آپ خود یہاں برسرزمین دیکھ سکتے ہیں کہ ان میں سے آج تک کوئی وعدہ پورا ہوا ہے نہ ہی پورا ہونے کا نام لے رہا ہے، اب چونکہ یہاں سردی کا موسم ہے، ٹھنڈ بہت زیادہ ہے اور ہمارے چھوٹے بچے، خواتین اور بزرگ افراد بہت سخت تکلیف کا شکار ہیں، گھر ہمارے ہیں نہیں اور جو ٹینٹ تھے وہ آپ نے دیکھ لئے۔”
مقامی لوگوں نے یہ الزام بھی عائد کیا ہے کہ یو این کی جانب سے فراہم کردہ ٹینٹ/خیموں کو ایک سیاسی جماعت نے اپنے جلسے میں استعمال کیا ہے۔
ھنہ اوڑک کے اور مکین کے مطابق ٹھنڈ بہت زیادہ ہے اور وہ آج بھی کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، بچے، بیمار اور بزرگ افراد سخت مشکلات کا شکار ہیں، سارے علاقے کو سخت مصیبت کا سامنا ہے۔
دوسری جانب پی ڈی ایم اے ترجمان کا کہنا ہے کہ بارشوں اور سیلاب کے پہلے ہی دن سے حکومتی سطح پر کام کا آغاز کیا گیا ہے اور تاحال وہ امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہیں، ”پی ڈی ایم اے نے کسی کو ٹینٹ یا ٹاٹ اس مقصد کے لئے نہیں دیا کہ ان کو لے کر سیاسی جلسے کئے جائیں نہ ہی یہ ہمارا مینڈیٹ ہے، ڈی ایم اے کا مینڈیٹ یہ ہے کہ جو فوڈ، نان فوڈ ائٹم ہے، یہ جو ہیں یہ نان فوڈ آئٹم میں آتے ہیں، ٹینٹ ہو یا ٹاٹ جسے لوگ بچھاتے اور پھر اس پر بیٹھتے ہیں لیکن یہ ہم ضلع کے ڈپٹی کمشنر یا ڈی ایم اے کا جو چیئرمین ہے انہیں ان کی ضرورت یا ڈیمانڈ کے مطابق، کہ وہ لکھ کر ہمیں دیتے ہیں کہ ہمیں یہ یہ چیز درکار ہے تو پی ڈی ایم، مطلب ہمارا مینڈیٹ یہ ہے، ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ ڈی سی کے لیٹر پر ہم انہیں فوڈ یا نان فوڈ آئٹم اس ضلع کو بھجواتے ہیں، پھر یہ ڈپٹی کمشنر یا ان کی ٹیم کو پتہ ہوتا ہے کہ کون لوگ ادھر مستحق ہیں، وہ حقدار ہیں یا نہیں ہیں۔”
خیال رہے کہ بارش اور سیلاب نے ھنہ اوڑک کی ساری سڑکوں اور راستوں کو تباہ کر دیا ہے، سیکرٹری اطلاعات کے مطابق ھنہ اوڑک بارشوں سے سب سے زیادہ متاثرہ علاقہ ہے، ”فلڈز ہیں بلوچستان کے اندر اور پورے پاکستان کے اندر، بلوچستان کی تاریخ میں تو پچھلے تیس سالوں میں اتنی ”کلاؤڈ برسٹ” اور ”ٹورینشل رینز” نہیں ہوئیں جتنی اس دفعہ ہوئیں، اس کا جو نقصان ہے اس کے بہت سارے ”ایسٹیمیٹس” تھے، ہر ضلع سے ”ایسٹیمیٹ” لئے گئے اور اک ڈزاسٹر کی ڈیڈ اسیسمنٹ کی گئی تاکہ پتہ چلے کہ ہوا کیا ہے، اور تمام 35 ڈسٹرکٹس کے اندر سے ڈیٹا اکٹھا کیا گیا اور پی ڈی ایم اے کو ڈپیوٹ کیا گیا، بورڈ آف ریونیو کو ڈپیوٹ کیا گیا اور ایک پوری ڈی ٹیل رپورٹ بنائی گئی کہ پوری اسیسمنٹ ہے کیا اور اس میں پھر یہ پتہ چلا کہ ہمارے ڈسٹرکٹس میں سات ایسے ڈسٹرکٹس ہیں جن میں سب سے زیادہ نقصان ہوا۔
سیکرٹری اطلاعات حمزہ نے مزید بتایا کہ گیس پائپ لائنیں اور بجلی کی تاریں بھی سب سیلاب برد ہوئی ہیں، مواصلاتی نظام سارا کا سارا درہم برہم ہوا ہے۔
انہوں نے یہ یقین دلایا کہ بہت جلد متاثرین سیلاب کے گھروں کو آباد کیا جائے گا اور ان کو مالی امداد بھی دے دی جائے گی۔