لائف سٹائلکالم

بریل طرز تحریر کب، اور کس کی ایجاد ہے؟

ارم رحمان

کاغذ پر ابھرا ہوا نقش نابینا افراد کے لیے کوئی نہ کوئی معنی رکھتا ہے اور وہ انگلیوں کی مدد سے چھو کر اسے پڑھ سکتے ہیں، یہ تحریر "بریل ” کہلاتی ہے۔ بریل کو پوری دنیا میں کتابوں کے مطالعہ کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور اس طرح نظر کی کسی بھی قسم کی خرابی کے حامل افراد کو پڑھنے میں آسانی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ نقطوں کے بٹنوں سے لے ذاتی ضروریات جیسے شیمپو، دوائیوں کے پیکٹ، اے ٹی ایم مشینوں تک میں بریل کا استعمال پورے معاشرے میں ان لوگوں کے لیے کیا جاتا ہے جو اسے پڑھ سکتے ہیں۔

اس طرز تحریر کو 4 جنوری 1809 کو فرانسیسی نابینا شخص جناب "لوئیس بریل” نے ایجاد کیا تھا جو کسی حادثے میں اپنی قوت بصارت صرف تین سال کی عمر میں کھو بیٹھے تھے اور محض 15 سال کی عمر میں بریل کا رسم الخط ایجاد کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے لیکن بریل رسم الخط پہلی بار شائع 1829 میں کیا گیا۔ بریل کا نام ان کے نام پر ہی رکھا گیا ہے اور انٹرنیشنل بریل ڈے کا آغاز پہلی بار 4 جنوری 2019 میں کو ہوا، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 6 نومبر 2018 کو اس دن قرارداد کے حوالے سے فیصلہ کیا کہ لوئس بریل کے یوم پیدائش 4 جنوری کو ہی بریل ڈے منایا جایا کرے گا اور اس دن معذور افراد کے حقوق، قانون سازی اصلاحات و انتظامات کے حوالے سے ساری دنیا میں بات کی جائے گی اور اس ضمن میں سیمینار منعقد کیے جائیں گے۔

بریل ایک سپرش تحریری نظام ہے، یہ ایک خاص قسم کے اٹھائے ہوئے کاغذ پر لکھا جاتا ہے، پہلے اس کا کوڈ نقطوں اور اس کا کوڈ 12 الفاظ پر مبنی تھا۔ 12 نقاط کو 66 کی قطاروں میں رکھا گیا تھا تاہم اس میں اوقاف اعداد اور ریاضی کی علامتوں کی کمی محسوس کرتے ہوئے لوئس بریل نے 64 کی بجائے 06 پوائنٹس کا استعمال کرتے ہوئے 12 حروف اور علامتیں ایجاد کر کے مزید بہتری لائی جس کے اوقاف نمبر، میکنیفکیشن اور موسیقی کے اشارے اور علامتیں بھی فراہم کیں۔

یہ ایک ایسا نظام ہے کہ ہر نابینا شخص اس سے استفادہ کر کے اپنی معاشی اور معاشرتی ذمہ داریاں بہ آسانی پوری کر سکتا ہے، یہ نظام نابینا کو سماج اور معاشرے کے باقی افراد سے جوڑنے میں مد دیتا ہے اور انھیں بھیک اور خیرات مانگنے کی اذیت سے محفوظ رکھتا ہے۔

اس رسم الخط یعنی بریل کو پوری دنیا میں کتب کے مطالعہ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ڈوئچے ویلے کے ساتھ ایڈیٹر کے طور پر وابستہ اور زبانوں کی تحقیق میں ماہر، بچپن سے نابینا "اسکندر عابدی'” کا کہنا ہے کہ یہ کام اتنا بھی مشکل نہیں۔ وہ کہتے ہیں ذرا سی مشق سے بریل میں لکھی کوئی بھی تحریر پڑھی جا سکتی ہے۔ یہ 6 نقاط پر مبنی ہوتی ہے، 3 عمودی اور 3 افقی، اس طرح مجموعی طور پر 6 پوزیشنز ہوتی ہیں جن میں ہر ہوزیشن پر کوئی ابھرا ہوا نقطہ ہوتا ہے یا خالی جگہ اس طرح جوڑے کے کل 64 امکانات ہوتے ہیں۔

بریل خود کوئی زبان نہیں بلکہ یہ ان علامات کے کوڈ پر مشتمل ہوتی ہے جو کسی زبان میں استعمال ہوتی ہے۔ بریل لاطینی ہی نہیں بلکہ بہت ساری زبانوں کے ساتھ ساتھ چینی، روسی اور فارسی میں بھی دستیاب ہے۔

بریل کے ذریعے نابینا افراد معاشرے میں اپنا مقام بنا سکتے ہیں اور اپنی صلاحیتوں کو منوا سکتے ہیں۔

پاکستان میں پچھلے پچاس سال سے نابینا افراد کی آواز پر کان نہیں دھرے گئے، ان کے لیے خاطر خواہ نصاب اور نظام عمل میں نہیں لایا گیا۔ ملتان میں "محمد بن قاسم بلائںڈ ویلفیئر کمپلیکس چوک کمہارانوالہ میں سیمینار ہوا اور اس میں سب کو آگاہ کیا گیا کہ بریل کتاب مارکیٹ میں دستیاب نہیں جس کا حصول ممکن بنایا جائے۔

خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں پہلے اور جدید بریل پرنٹنگ پریس کا نا صرف قیام عمل میں آیا ہے بلکہ صوبے کے اندر تدریسی کتابوں کا بریل زبان میں تبدیل کرنے پر بھی کام تیزرفتاری سے جاری ہے۔ نئے دور کے تقاضوں اور جدید مشینری سے لیس اس پرنٹنگ پریس کو پشاور میں بصارت سے محروم بچوں کے لیے ایک سرکاری سکول میں قائم کیا گیا جہاں پہلی سے دسویں تک کی تمام نصابی کتب کو بریل زبان میں تبدیل کروانے کے لیے بہت ماہر ملازمین کام کر رہے ہیں۔

خیبر پختونخوا میں حکومت کی جانب سے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق تین لاکھ پچھتر ہزار سات سو باون افراد معذور ہیں اور ان میں سے 7.2 فی صد نابینا ہیں۔ اس کے علاوہ قبائلی اضلاع میں پندرہ ہزار معذور افراد ہیں جن میں سے دس فی صد نابینا ہیں۔

پچھلے 50 سال سے نابینا افراد کو صرف ووکیشنل تربیت پر لگا رکھا گیا تھا۔ سندھ بورڈ میں بھی کتب کو بریل کی شکل دینے کے لیے 23 سالہ نابینا سعود شیخ کی خدمات پچھلے دو سال سے جاری ہیں، پہلی جماعت سے لے کر آٹھویں جماعت کی تمام نصابی کتب بریل میں دستیاب ہوا کریں گی۔

سعود شیخ نے انٹرمیڈیٹ تک تعلیم حاصل کی اور مختلف کورس کیے جن میں "ڈکسبری بریل ٹرانسکرپشن سافٹ وئیر”
کا کورس بھی کیا ہے۔

ابھی تک پاکستان میں معذور افراد کے لیے خاطر خواہ کام انجام نہیں دیا گیا، بہت سے قابل اور باصلاحیت تھوڑی سی توجہ اور محنت سے ایک فعال زندگی گزارنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ بس ضروت ہے تو اقتدار کے ایوانوں میں براجمان بادشاہوں کی جو کسی پر نظر ملتفت کرنا پسند نہیں کرتے، جن کا مطمح نظر اور محور فقط ان کی ذات ہوا کرتی ہے، جو اپنے سیاسی اور معاشی مفاد کے حصول میں اس قدر گم ہیں کہ ان کے پاس اپنے سوا کسی کے بارے میں سوچنے کا وقت ہی نہیں۔

عوام کا کام اگر صرف اپنی تکلیفوں پر صرف صبر کرنا ہے تو ان شاہی کارندوں کی جگہ عوام کا نمائندہ ہی اقتدار میں آنا چاہیے جو عوام کے دکھ درد اور مسائل سمجھ سکے۔

Erum
ارم رحمٰن بنیادی طور پر ایک شاعرہ اور کہانی نویس ہیں، مزاح بھی لکھتی ہیں۔ سیاست سے زیادہ دلچسپی نہیں تاہم سماجی مسائل سے متعلق ان کے مضامین نہ صرف ملکی سطح پر بلکہ پڑوسی ملک سمیت عالمی سطح کے رسائل و جرائد میں بھی شائع ہوتے رہتے ہیں۔
Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button