”سردی ہے بہت، ٹھنڈ لگ رہی ہے بچوں کو!”
عزیز سباؤن
بلوچستان کے ضلع جعفرآباد کے 70 سالہ رہائشی ہی نہیں بلکہ یہاں کی 95 فیصد آبادی کو گزشتہ سال مون سون کی بارشوں اور ان کے باعث آنے والے سیلاب نے اپنے گھروں سے بے دخل کر دیا ہے۔
کم و بیش چھ ماہ کا عرصہ ہو گیا ہے تاہم جعفرآباد کا آدھے سے زائد علاقہ آج بھی زیرآب ہے۔
پانچ بچوں کی ماں جان بی بی کے بقول ان کے پاس خوراکی اشیاء موجود ہیں نہ ہی رہائش کیلئے جگہ جبکہ موسم کی شدت میں اضافے کے بعد ان کی مشکلات اور بھی بڑھ گئی ہیں اور آج کل ان کے بچے اس ٹھنڈ میں دن رات بس کرنے پر مجبور ہیں، ”جیسے بیٹھے ہیں ویسے ہی بیٹھے ہیں، پہننے کے لئے بچوں کو کپڑے نہیں ہیں، سردی ہے بہت ٹھنڈ لگ رہی ہے بچوں کو، بیمار پڑے ہیں، کپڑے ہیں، کوئی کمبل ہے، ہم کو، مہربانی کرو ہم غریبوں کو دے دیں۔”
دوسری جانب پی ڈی ایم کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال جون کے وسط اور پھر اگست کے آخر تک ہونے والی بارشوں اور سیلاب نے بلوچستان بھر میں 3 لاکھ 21 ہزار 19 گھروں کو متاثر کیا۔
مذکورہ رپورٹ کے مطابق سیلاب نے سب سے زیادہ صوبہ سندھ سے متصل نصیرآباد ڈویژن کو متاثر کیا جہاں لگ بھگ 94 ہزار 578 گھر متاثر ہوئے۔
اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود متاثرین سیلاب کے لئے گھر یا انہیں اس ٹھنڈ سے بچانے کے لئے کوئی اور جگہیں کیوں نہیں بنائی جا سکیں؟ اس سوال کے جواب میں پی ڈی ایم اے کے وزیر میر ضیاء لانگو کا کہنا تھا کہ ان کا بنیادی کام لوگوں کو تحفظ فراہم کرنا ہے، تاہم ان کے بقول متاثرین سیلاب کی بحالی کے لئے وفاقی حکومت نے فنڈز کی فراہمی کا وعدہ کیا تھا جو تاحال پورا نہیں کیا جا سکا ہے۔
”اور یہ فیڈرل گورنمنٹ کا کام بھی ہے، انہوں نے وعدہ بھی کیا تھا کہ ان کیلئے ہم آپ کو فنڈز دیں گے لیکن وہاں سے ہمیں ابھی تک ایک روپیہ بھی نہیں ملا کہ ہم ان کو دوبارہ آباد کریں۔” میر ضیا لانگو نے ٹی این این کو بتایا۔
خیال رہے کہ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق 2022 میں ہونے والی بارشوں اور سیلاب کے باعث مجموعی طور پر کل 15 لاکھ سے زائد افراد متاثر ہوئے جن میں 336 افراد جاں بحق بھی ہوئے۔
رپورٹ کے مطابق جاں بحق افراد کے ورثا کے ساتھ دس، دس لاکھ روپے کی امداد کے علاوہ کم و بیش دس لاکھ متاثرین کے ساتھ بھی تعاون کیا گیا ہے۔