کلائمیٹ چینج: مستقبل میں ہمیں کس طرح کے گھر بنانے چاہئیں؟
انور زیب
گزشتہ ماہ دسمبر کے دوسرے عشرے میں دارالحکومت اسلام آباد میں ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے ایک اجلاس ہوا جس سے وفاقی وزیر برائے ماحولیاتی تبدیلی شیری رحمان اور دیگر متعلقہ ماہرین نے خطاب کیا۔
اجلاس میں کلائمیٹ ریزلئنس اور زیرو کاربن ہاؤسنگ سے متعلق منصوبہ بندی پر زور دیا گیا۔
اس حوالے سے ڈپٹی ڈائریکٹر کلائمیٹ چینج اینڈ انوائرنمینٹل پروٹیکشن افسر خان کا کہنا تھا کہ کلائمیٹ چینج ایک حقیقت ہے اور اس کیلئے تیاری بروقت تیاری کی ضرورت ہے خواہ وہ زیرو کاربن ہاؤسز کی صورت میں ہو یا کلائمیٹ ریزلئنٹ گھروں کی شکل میں، ”گرین ہاؤس گیسز تو صرف پاکستان پروڈیوس نہیں کرتا نا بلکہ ورلڈ وائڈ (دنیا بھر میں) پروڈیوس ہوتی ہیں لیکن اس کی تو چونکہ پولیٹیکل باؤنڈری تو نہیں ہوتی، بات تو یہ ہے کہ اس کے اثرات سے ہم تب بچیں گے جب ہم پری پلاننگ کریں گے، پاکستان کی جو پری پلاننگ ہے وہ این ڈی سیز کی شکل میں ہے، این ڈی سیز کسے کہتے ہیں؟ مطلب نیشنل ڈٹرمنٹ کنٹری بیوشنز، این ڈی سیز میں یا نیشنل ڈٹرمنٹ کنٹری بیوشنز جو ہیں پاکستان کے اپنے ٹارگٹس ہیں، مطلب یہ کہ 2030 تک ہم گرین ہاؤس گیسز کو کتنی حد تک کم کریں گے، پاکستان نے واضح کیا ہے کہ 2030 تک ہم 50 فیصد گیسز کو کم کریں گے، ان میں 15 فیصد جو گیسز ہیں وہ رضاکارانہ طور پر کم کریں گے اور باقی جو 35 فیصد ہیں ان کو ہم کم کریں گے بشرطیکہ ٹیکنالوجی ٹرانسفر، فنانشل اسیسٹنس اور کیپسیٹی بلڈنگ میں ترقی یافتہ ممالک ہمیں سپورٹ کریں۔”
افسر خان کے مطابق مستقبل میں ایسے گھر بنانے چاہئیں جن کی توانائی کی ضرورت شمسی یا وِنڈ انرجی سے پوری ہو سکے، کوشش ہونی چاہئے کہ کسی نا کسی طرح سے گرین ہاؤس گیسز کے اخراج میں کمی لائی جا سکے، ”زیرو کاربن ایمشن سٹریٹجی یہ ہے کہ یہ جو بلڈنگز ہیں جنہیں ہم گرین بلڈنگز کہتے ہیں، یا تو ان کی سولرائزیشن ہو جائے اور دوسرا یہ ہے کہ ان بلڈنگز کے اردگرد پلانٹیشن ہو جائے، یہ گملے نہیں ہوتے، پاٹس، ان میں پلانٹس اردگرد لگائے جائیں، یہ پلانٹس جو ہیں یا پودے، یہ سورج کی روشنی کو جذب کرتے ہیں، تو یہ جب اس روشنی کو جذب کرتے ہیں تو یقیناً یہ روشنی تو گھر میں داخل نہیں ہو گی بلکہ اسے تو یہ پودے جذب کریں گے تو گھر ایک طرح سے ٹھنڈا پڑا رہے گا۔”
خیال رہے کہ پاکستان میں ہر سال کلائمیٹ چینج کی وجہ سے ہونے والی قدرتی آفات سے اربوں روپے کا نقصان ہوتا ہے۔ گزشتہ دو سالوں کے دوران صرف خیبر پختونخوا میں قدرتی آفات کی وجہ سے 197 افراد جاں بحق اور سینکڑوں زخمی ہوئے جبکہ عمارات کو بھی بڑی سطح پر نقصان پہنچا۔
2022 میں صوبے میں آنے والے سیلاب کی وجہ سے 358 لوگ جاں بحق اور پانچ سو زخمی ہوئے جبکہ 37 ہزار گھر مکمل طور پر تباہ اور ایک لاکھ سے زائد مکانات کو جزوی طور پر نقصان پہنچا۔