1974: جب ملک میں لوڈشیڈنگ کی ابتدا 15 منٹ سے ہوئی
ڈاکٹر ہمایون ہما
جی بار بار گوش گزار کر چکے ہیں کہ عوام کو بنیادی سہولیات کی فراہمی ہر حکومت کی بنیادی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ اور ہر شہری کا یہ ایک ایسا حق بنتا ہے کہ اس میں کسی دوسری رائے کی گنجائش نہیں!
لیکن ہمیں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ کم و بیش ہر سرکار برسراقتدار آنے کے بعد اپنی کرسی بچانے کے مسائل میں گِھر جاتی ہے اور اقتدار سے محروم ٹولہ انہیں نیچا دکھانے میں مصروف ہو جاتا ہے۔ نتیجہ اس کا یہ نکلتا ہے کہ عوام کی بنیادی ضرورتوں کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتا اور ان کی صرف اپنے اقتدار کو محفوظ رکھنے کے لیے مختلف حربے استعمال کرنے کی طرف توجہ رہتی ہے جن میں عوام کی بہتری کا کوئی منصوبہ شامل نہیں ہوتا۔
عوام کے روزانہ استعمال کی چیزوں میں گیس اور بجلی کو بنیادی اہمیت حاصل ہے جبکہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ان دونوں شعبوں میں زوال کے آثار نمایاں ہیں۔ سب سے پہلے ہم بجلی کا ذکر کرنا چاہتے ہیں۔
ہمیں یاد ہے ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں خاتون اول ایک شام سرکاری ٹیلی ویژن پر نمودار ہوئیں اور انہوں نے دس منٹ کے مختصر خطاب میں قوم کو بتایا کہ اس وقت ملک کو بجلی کی قلت کا سامنا ہے چنانچہ حکومت کی جانب سے اس سلسلے میں قوم سے تعاون کی استدعا کی جاتی ہے اور شام کے اوقات میں صرف پندرہ منٹ کی لوڈشیڈنگ کی جائے گی اور قوم کو صرف چند ماہ کے لیے یہ تکلیف برداشت کرنا پڑے گی۔
یہ 1974 کا سال تھا جبکہ ملک میں لوڈشیڈنگ کی ابتدا پندرہ منٹ سے ہوئی جو اب کم ہو بیش 48 سال بعد شہری علاقوں میں 12 گھنٹے اور دیہات میں 20 گھنٹے تک پہنچ چکی ہے نتیجتاً کارخانے بند ہوتے جا رہے ہیں۔
ایک خبر کے مطابق سوت کی 80 فیصد صنعت پر تالے پڑ چکے ہیں اور لاکھوں کے حساب سے کارکن بے روزگار ہو گئے ہیں۔ اسی طرح سرِ شام ہی مارکیٹیں ویران ہو جاتی ہیں۔
شنید ہے کہ ملک میں اس وقت توانائی کا بحران اپنے عروج پر ہے اور شارٹ فال 80 فیصد تک بڑھ چکا ہے جو ملک کی معاشی ترقی کے لیے تباہی کا سبب ہے۔ اگر یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو ملک کے دیوالیہ ہونے میں کوئی کسر باقی نہیں رہے گی۔
عوام تو بجلی سے محروم ہیں اور موسم سرما میں لشٹم پشٹم گزارہ کرنے پر مجبور ہیں لیکن گرمیوں کے موسم میں توانائی کے بحران میں مزید اضافہ ہونے کا خدشہ ہے۔ ملک میں بجلی موجود نہیں لیکن واپڈا کے دو لاکھ ملازمین کو برائے نام قیمت پر بجلی فراہم کی جاتی ہے۔
شہری علاقوں سے باہر تمام دیہاتی لوگ کنڈا سسٹم پر بجلی کی چوری میں مصروف ہیں جس کے نتیجے میں محکمہ بجلی کو جن نقصانات (Losses) کا سامنا ہے وہ محکمہ بجلی کی قیمت میں مسلسل اضافہ کر کے پورے کر رہا ہے۔
اس وقت گھریلو صارفین کو 24 روپے فی یونٹ بجلی فراہم کی جا رہی ہے؛ اگر آپ ایک یونٹ بھی خرچ نہ کریں تب بھی آپ کو ایک ہزار سے پندرہ سو روپے تک ٹیکس کی مد میں ادائیگی کرنا پڑتی ہے جو بالیقین عوام پر ایک اضافی بوجھ ہی نہیں ناانصافی بھی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں اگر سرکار نے بجلی کے شعبے میں انقلابی بنیادوں پر کوئی منصوبہ بندی نہ کی تو یہ محکمہ مکمل طور پر تباہ ہو جائے گا۔
سوئی گیس کا حصول بھی عوام کا بنیادی حق بنتا ہے مگر یہ شعبہ بھی شدید مسائل سے دوچار ہے؛ ایک تو ملک میں گیس کے ذخائر کم ہوتے جا رہے ہیں اور دوسری طرف آبادی میں مسلسل اضافے کی وجہ سے گیس کی ڈیمانڈ میں اضافہ بھی ناگزیر ہو چکا ہے۔
حکومت دوردراز علاقوں میں گیس پہنچانے کی کوشش کر رہی ہے جس سے نہ صرف گیس کے موجودہ صارفین کی مشکلات میں اضافہ ہو جاتا ہے بلکہ نئے صارفین بھی کنکشن ملنے کے باوجود گیس سے محروم رہتے ہیں۔
کارخانوں میں بھی بجلی کے علاوہ گیس کے استعمال میں اضافہ ہو رہا ہے، گیس کی قلت کی وجہ سے صنعتوں کو گیس کی فراہمی ممکن نہیں لہٰذا کارخانے بند ہو رہے ہیں بالخصوص کپڑے کی صنعت اس سے شدید متاثر ہو رہی ہے۔
بجلی اور سوئی گیس میں قلت کے علاوہ ان شعبوں میں بدعنوانی بھی عام ہے اور عوام کو ان محکموں کے کارکنوں سے بے شمار شکایات ہیں۔ ان پر ہم کسی دوسری نشست میں بات کریں گے۔