سیاستکالم

آٹا مسلسل مہنگا، صوبائی وزراء اپنا عہد بھول گئے

محمد فہیم

رواں برس جولائی کے پہلے ہفتے میں پنجاب کی ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں آٹے اور گندم کی نقل و حمل پر پابندی عائد کر دی گئی جبکہ پاسکو اور پنجاب حکومت کی جانب سے مارکیٹ سے 5،5 لاکھ ٹن اضافی خریداری نے مارکیٹ میں عدم استحکام پیدا کر دیا، اس وقت کا عدم استحکام آج تک جاری ہے اور اس میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔

پنجاب حکومت نے جب گندم اور آٹے کی نقل و حمل پر پابندی عائد کی تھی اس وقت وفاق اور پنجاب میں مسلم لیگ ن کی حکومت تھی، حمزہ شہباز پنجاب کے وزیر اعلیٰ اور ان کے والد شہباز شریف پاکستان کے وزیر اعظم تھے، نقل و حمل پر پابندی کی وجہ سے خیبر پختونخوا حکومت پر سب سے زیادہ دباﺅ بڑھا اور صوبائی حکومت کے وزراء نے مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے پنجاب حکومت پر الزامات لگا دیئے، وزراء نے یہ عہد بھی کیا کہ وہ خیبر پختونخوا کے عوام کا حق ہر حال میں چھین کے رہیں گے۔ وزیر اعلیٰ محمود خان نے بھی صوبے کیلئے پنجاب کے ساتھ محاذ آرائی کا فیصلہ کیا اور عوام کے حقیقی نمائندے ہونے کا ثبوت دیا۔

17 جولائی کے ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی کو فتح ملی اور نتیجتاً حمزہ شہباز کرسی سے اتر گئے، پرویز الہی وزیر اعلیٰ بن گئے اور پی ٹی آئی کی حکومت بن گئی۔ خیبر پختونخوا کے عوام کو بتایا گیا کہ پنجاب نے اس لئے آٹے اور گندم پر پابندی لگائی کیونکہ ان کا مقصد سیاسی ہے لہٰذا مسلم لیگ ن حکومت سے گئی تو اب حالات قابو میں آ جائیں گے۔

لیکن جولائی سے اب تک معاملات جوں کے توں ہیں؛ پنجاب نے اب تک وہ پابندی نہیں اٹھائی اور خیبر پختونخوا میں گزشتہ دسمبر جو آٹے کا 20 کلو کا تھیلا 1100 روپے تک دستیاب تھا آج ایک سال بعد آٹے کا وہی تھیلا 2500 روپے تک پہنچ گیا ہے۔ قیمت میں 130 فیصد سے بھی زیادہ اضافہ ہونے کے بعد بھی اب وہ صوبائی وزراء نظر نہیں آ رہے جو جولائی میں خیبر پختونخوا کی عوام کا مقدمہ لڑنے کیلئے تیار تھے۔

صوبائی حکومت اور اس کے وزراء گزشتہ 5 ماہ سے یہی بات کر رہے ہیں کہ پنجاب حکومت سے بات ہو گئی ہے جلد پابندی اٹھ جائے گی اور معاملہ حل ہو جائے گا۔ اس بات کے ساتھ ہی وہ وفاق پر الزام لگا دیتے ہیں کہ اگر وفاق کو صوبے کی پرواہ ہے تو ہمیں سبسڈی کی رقم ادا کرے۔

خیبر پختونخوا حکومت نے صوبے میں آٹے کی صورتحال کا ہر ممکن سیاسی فائدہ اٹھایا ہے لیکن خدا کی کرنی ایسی ہے کہ پنجاب میں انہی کی حکومت آ گئی ہے اور اب سیاسی دباﺅ برداشت کرنے کی بجائے صوبائی حکومت دیگر معاملات میں خود کو الجھا رہی ہے۔

صوبے کے عوام کو اس سے فرق نہیں پڑتا کہ حکومت کس کی ہے لیکن اس سے ضرور فرق پڑتا ہے کہ ان کے بچوں کے پیٹ میں اناج کا دانا آیا ہے کہ نہیں؟

لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ مسلم لیگ نے جس طرح خیبر پختونخوا کے ساتھ زیادتی کر کے گندم اور آٹے کی نقل و حمل پر پابندی عائد کی پی ٹی آئی نے اسی کا سیاسی استعمال کر کے صوبے کے عوام کے ساتھ بھی کوئی بھلائی کا کام نہیں کیا ہے اور اب 5 ماہ سے اس صوبے میں گندم کے بڑھتے بحران پر حکمرانوں کی خاموشی صوبے کے عوام کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے۔

خیبر پختونخوا میں گندم اور آٹے کے بحران کو اس وقت بھی سنجیدگی سے قابو کرنے کی کوئی کوشش نہیں ہو رہی؛ محکمہ خوراک اپنے معاملات میں مصروف ہے جبکہ محکمہ زراعت کے پاس بھی دیگر کئی امور زیر غور ہیں اور سیاسی حکومت کو اپنے مفادارت عزیز ہیں ایسے میں اس گندم کے بحران کو کنٹرول کرنا کسی کی بھی ترجیح نہیں لگ رہا۔

ذمہ داران کی تو کوئی توجہ اس طرف نہیں لیکن قدرت کے نظام کو دیکھا جائے تو اس کے تحت گندم کی فصل کی کٹائی مارچ میں شروع ہو جائے گی جو سندھ کے علاقوں میں ہو گی اور اسی طرح اپریل کے وسط تک آٹے کی فراہمی شروع ہو گی جس کے بعد مارکیٹ میں استحکام آئے گا۔

قدرت کے اس نظام کیلئے مزید ساڑھے تین ماہ کا انتظار کرنا پڑے گا اور تب تک ذمہ داران کی بے حسی کی وجہ سے خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ پشاور میں آٹے کی 20 کلو تھیلے کی قیمت 2800 روپے تک تجاوز کر سکتی ہے، اتنا مہنگا آٹا خریدنے کے بعد عوام کیلئے نئے پاکستان، ایشین ٹائیگر، ”خپلہ خاورہ”، اسلامی پاکستان اور روٹی کپڑا اور مکان کے نعرے بے اثر ہی ہوں گے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button