بغیر کوچ کے بھی کوئی چیمپئن بن سکتا ہے؟
ذیشان کاکاخیل
”نہ کوچ اور نہ ہی کوئی اور سہولت، پریکٹس کے لیے سکواش کمپلیکس تو بنایا گیا مگر وہاں انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے لڑکیاں اپنا کریئر شروع کرتے ہی ختم کر دیتی ہیں؛ والدین یا پھر اپنی خواہش لڑکیوں کو سکواش کے میدان میں تو لے آتی ہے، سکواش کے میدان میں اکثر کھلاڑیوں کی خواہش بھی یہی ہوتی ہے کہ وہ اس کھیل میں نام پیدا کریں لیکن جب وہ سکواش کمپلیکس ایبٹ آباد آتی ہیں تو کچھ ہی دنوں میں وہ سکواش کو خیرآباد کہہ دیتی ہیں، بہت کم ہی کوئی لڑکی ایسی ہو گی، میری طرح جو تمام تر چیلنجز کے باوجود آگے آئے گی اور اپنے ملک کے لیے کچھ کرے گی یا کرنے کی خواہش یا جذبہ دل میں رکھے گی۔” ان خیالات کا اظہار حال ہی میں جونیئر سکواش چیمپئن بننے والی پلیئر رانیہ قاضی نے کیا۔
رانیہ قاضی جماعت نہم کی طالبہ ہیں جو سکواش کے میدان میں پاکستان کو ایک بار پھر چیمپئن بنانے کی خواہش رکھتی ہیں۔ رانیہ حال ہی میں پشاور کے قیوم سپورٹس کمپلیکس میں منعقد ہونے والی خیبر پختونخوا جونئیر سکواش چیمپئن شپ کا فائنل جیت کر چیمپئن بنی ہیں۔ رانیہ کے 3 بہن بھائی ہیں اور وہ سب سے بڑی ہیں اس لئے ان کو تعلیم کے ساتھ ساتھ گھر میں ماں کا ہاتھ بھی بٹانا پڑتا ہے اور پھر پریکٹس کے لیے وقت بھی نکالنا پڑتا ہے۔
رانیہ کے مطابق پڑھائی کے ساتھ گھر کے کام کرنا اور پھر سکواش کو وقت دینا انتہائی مشکل کام ہے، ”پہلے پہلے تو میں بھی دوسری لڑکیوں کی طرح اس کھیل کو چھوڑنے کا سوچ رہی تھی کیونکہ گھر میں وقت نہیں ملتا تھا اور سٹیڈیم میں سہولیات، اسے میں جب آپ کا کوئی کوچ بھی نہ ہو تو کوئی کیسے منیج کر سکے گا اور آگے آ سکے گا۔”
رانیہ قاضی ضلع ایبٹ آباد کے علاقہ محلہ جنگی قاضیاں سے تعلق رکھتی ہیں، ان کے مطابق ان جیسے کھلاڑیوں کو اگر سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے تو وہ ملک کا نام روشن کر سکتی ہیں، ”ہمارے مرد تو مرد خواتین میں بھی ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں، اگر کمی ہے تو ان پر توجہ اور یکساں مواقع فراہم کرنے کی ہے۔”
ان کے مطابق وہ جان شیر سکواش کمپلیکس ایبٹ آباد میں پریکٹس کرتی ہیں، جہاں کھلاڑیوں کے لیے کوئی سہولت نہیں اور تو اور کوچ تک وہاں موجود نہیں ہے لیکن اس کے باوجود بھی انہوں نے دن رات محنت کی اور انہوں نے پشاور کی کھلاڑی کو جونیئر سکواش انڈر 15 کے مقابلوں میں ہرا دیا ہے۔
رانیہ انڈر 15 سکواش چیمپئن بننے سے پہلے 2021 میں انٹر ڈسٹرکٹ چیمپئن اور کے پی چیمپئن ہونے کا اعزاز بھی حاصل کر چکی ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ وہ نیشنل انڈر 15 میں بھی تیسری پوزیشن حاصل کرنے والی ضلع ایبٹ آباد کی پہلی خاتون سکواش کھلاڑی ہونے کا اعزاز بھی رکھتی ہیں۔
رانیہ کے مطابق حکومت کو چاہیے کہ زیادہ سے زیادہ سکواش کے مقابلوں کا انعقاد کرائے تاکہ نیا ٹیلنٹ سامنے آئے اور ہر کسی کو یکساں مواقع ملیں۔ ان کے مطابق سال میں صرف چند ہی مقابلے ہوتے ہیں پاکستان کی سطح پر ایسے میں کس طرح نیا ٹیلنٹ سامنے آئے گا اور کیسے ہر کسی کو یکساں مواقع ملیں گے؟
وسائل اور آگاہی کی کمی کے باعث وہ نہ مناسب ٹریننگ کر پاتی ہیں اور نہ ہی ان کی خوراک معیار کے مطابق ہے ان کی خوراک اور ایکسرسائز مناسب نہیں اس لئے کہ ان کا کوئی کوچ نہیں ہے۔
رانیہ کے والد قاضی وحید گل کے مطابق یہ ان کی سپورٹ ہے کہ ان کی بیٹی آگے آ رہی ہے، ”اگر ہم والدین اپنے بچوں کو سپورٹ نہ کریں تو وہ کبھی آگے نہیں آ سکتے۔”
رانیہ کے والد کے مطابق وہ ایک سرکاری نوکر ہیں ایوب میڈیکل کمپلیکس میں اور ان کے لیے اپنی بچی کو وقت دینا انتہائی مشکل ہے کیونکہ یا نوکری کرنی ہو گی اور پا پھر ان کو اپنی بیٹی کے کھیل پر توجہ دینی ہو گی کیونکہ پریکٹس کے لیے اس کو پیدل سپورٹس کمپلیکس لے جانے میں ان کو کافی وقت لگتا ہے۔
پشاور کے قیوم سپورٹس کمپلیکس میں انڈر 13،11 اور 15 کے مقابلوں کا انعقاد کیا گیا، انڈر 11 کٹیگری میں 64 اور انڈر 13 اور 15 میں 32،32 کھلاڑیوں نے حصہ لیا۔ انڈر 15 سکواش کے مقابلوں میں صرف 16 خواتین کھلاڑیوں نے حصہ لیا جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ خواتین کیلئے کھیلوں کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں ایک طرف 100 کے قریب لڑکے مختلف کٹیگری میں حصہ لے رہے ہیں تو دوسری طرف چند ہی لڑکیاں آگے اکر سکواش سمیت دوسرے مقابلوں میں حصہ لے رہی ہیں۔ اگر حکومت کھیلوں کے فروغ پر توجہ دے تو پشاور کی وجیہہ اور ایبٹ آباد کی رانیا جیسی کئی لڑکیاں سکواش کورٹ میں کھیلتے ہوئی نظر آئیں گی۔
سکواش کے عالمی چیمپئن جان شیر اور قمر زمان کے مطابق سکواش کے کھیل پر اگر اب بھی توجہ نہ دی گئی تو یہ کھیل ختم ہو جائے گا، ”اکثر کھلاڑیوں کو سپانسر نہیں مل رہا ہے اسی لئے اچھے سے اچھا کھلاڑی بھی آگے نہیں آ رہا ہے۔”