سیاستکالم

کیا خیبر پختونخوا حکومت پرانی تنخواہ پر کام جاری رکھے گی؟

محمد فہیم

چیئرمین تحریک انصاف نے آخرکار اعلان کر ہی دیا۔ اور اسمبلیوں کی تحلیل کیلئے انہوں نے جمعہ کے روز کا انتخاب کیا ہے۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں جمعہ کے روز کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا؛ نواز شریف کے نااہل ہونے سے عمران خان کے نااہل ہونے تک ماضی قریب میں تمام بڑے سیاسی فیصلے جمعہ کے روز ہی سامنے آئے ہیں اور شاید مسلسل کئی جمعے پی ٹی آئی کیخلاف فیصلے آنے کے بعد عمران خان آنے والا جمعہ پی ٹی آئی کے حق میں کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاہم ایسا کرنا اتنا آسان نہیں ہو گا۔

تحریک انصاف کو خیبر پختونخوا میں کوئی خاص مزاحمت کا سامنا نہیں ہے؛ صوبائی اسمبلی میں ان کی دو تہائی اکثریت ہے جس کی وجہ سے اپوزیشن تحریک عدم اعتماد لا کر صرف معاملہ چند روز کیلئے لٹکا سکتی ہے لیکن انہیں منع نہیں کر سکتی لیکن اصل مسئلہ پنجاب کا ہے۔

عمران خان کی تقریر کے دوران ایک جانب محمود خان اور دوسری جانب پرویز الہی موجود تھے تاہم پرویز الہی کے چہرے کے آثار زیادہ پرکشش تھے؛ جس طرح وہ عمران خان کے ساتھ بیٹھ کر بے آرام اور پریشان نظر آ رہے تھے اس کا اثر بھی سامنے آ گیا ہے۔

پرویز الہی نے ایک ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ عمران خان کا جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کے بارے میں سخت الفاظ استعمال کرنا انہیں اچھا نہیں لگا۔ اس انٹرویو میں اور بھی بہت ساری باتیں ہیں لیکن یہ انٹرویو واضح کر رہا ہے کہ پنجاب اسمبلی کا ڈر اور خوف موجود ہے اور اس میں اب شدت آ رہی ہے۔  پنجاب اسمبلی کی تحلیل روکنے کیلئے اپوزیشن بھی متحرک ہے اور چند سیٹوں پر کھڑی پنجاب حکومت کو گرانے میں چند لمحے درکار ہوں گے۔

خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ محمود خان اس وقت کپتان کے اشارے کے منتظر ہیں لیکن کپتان صرف پختونخوا کی اسمبلی تحلیل کر کے خود کو کھلے میدان میں نہیں لا سکیں گے۔

خیبر پختونخوا اسمبلی بھی اب پنجاب اسمبلی کی مرہون منت ہے؛ اگر پنجاب میں ایک بار پھر سے میلہ سج گیا تو بلاشبہ محمود خان کی حکومت بھی بچ جائے گی اور اگر یہ میلہ صرف ایک ماہ بھی جاری رکھا گیا تو اسمبلیاں توڑنے اور قبل از وقت انتخابات کی تمام کوششیں بے سود ثابت ہوں گی۔

خیبر پختونخوا میں بھی پارٹی کو تقسیم کا اندیشہ ہے۔ یہاں بھی پارلیمانی پارٹی اور تنظیم کے درمیان اختلافات شدید نوعیت کے ہیں تاہم پنجاب کی نسبت یہاں کا معاملہ آسانی سے حل کیا جا سکتا ہے۔ اور اگر عمران خان نے ہر حلقے اور ہر ضلع میں خود دلچسپی لی تو تب ہی معاملہ ختم ہو جائے گی تاہم پنجاب میں پارٹی کی حالت زیادہ بہتر نہیں ہے۔

حقیقی آزادی لانگ مارچ میں بھی عوام کا انتہائی کم تعداد میں نکلنا اور صرف جلسوں میں شرکت کرنا قیادت کیلئے باعث تشویش ہے لیکن پارٹی اس حوالے سے اب تک کوئی لائحہ عمل ہی نہیں بنا سکی ہے جو پارٹی کیلئے انتخابات میں جانے سے قبل شدید مشکلات کھڑی کر سکتا ہے۔

تحریک انصاف کو ہمیشہ سے یہ بتایا گیا کہ چوہدری برادران پر حد سے زیادہ اعتبار نہ کریں صرف 10 ایم پی ایز کی بنیاد پر وزیر اعلیٰ بنا کر انہیں تمام قوت دے دینا کہیں مستقبل بعید میں نقصان نہ پہنچا دے لیکن سچ یہی ہے کہ پرویز الہی نے جتنا وقت بطور وزیر اعلی گزارا ہے پنجاب میں تحریک انصاف کو بڑا نقصان پہنچایا ہے۔ وقتی طور پر تو پی ٹی آئی کو ایک ٹھکانا مل گیا؛ عمران خان کو جلسے کرنے کیلئے وسائل بھی مل گئے اور عوفاق کیخلاف لانگ مارچ کرنے کیلئے پنجاب بھی مل گیا لیکن اس سب نے جو نقصان پی ٹی آئی کو پنجاب میں پہنچایا ہے وہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔

چوہدری پرویز الہی سیٹ ایڈجسٹمنٹ کیلئے پی ٹی آئی کے ساتھ معاملات طے کر چکے اور صرف 10 ممبران والی جماعت 40 سیٹوں پر پی ٹی آئی کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کر رہی ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی کے کئی ارکان مسلم لیگ ق میں اپنا مستقبل ڈھونڈ رہے ہیں جو پی ٹی آئی کے خلاف خطرے کی گھنٹی ہے۔ پی ٹی آئی ارکان یہ جانتے ہیں کہ عمران خان کا ٹکٹ جیت کی علامت ہو گا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ موجودہ ارکان اسمبلی میں سے کئی کو ٹکٹ ملنا ہی نہیں ہے جس کی وجہ سے انہوں نے ابھی سے اپنے لئے نئے ٹھکانوں کی تلاش شروع کر دی ہے۔

یہ تمام چیلنجز عمران خان کو درپیش ہیں جبکہ جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کے معاملہ پر اب پرویز الہی کا چیلنج انتہائی مشکل ہو گا؛ عمران خان اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اعلان کر چکے اور پرویز الہی اپنی ناراضگی کا اعلان کر چکے ہیں، ان دونوں اعلانات میں سے کس کا اثر زیادہ ہو گا اور کون ثابت قدم رہے گا خیبر پختونخوا حکومت جمعہ تک اسی انتظار میں رہے گی۔ اور اگر پنجاب اسمبلی تحلیل ہونے سے بچ گئی تو خیبر پختونخوا کی حکومت بھی پرانی تنخواہ پر کام جاری رکھے گی۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button