فرنٹ لائن پر فرائض سرانجام دینے والے صحافیوں کے دکھوں کا مداوا نہ ہو سکا
عارف خان
پشاور میں گزشتہ تین سال کے دوران صحافتی ذمہ داریاں سرانجام دیتے ہوئے صحافیوں پر حملے، تشدد، دھمکیوں اور صحافتی امور سے روکنے سمیت یرغمال بنانے کے متعدد واقعات رونما ہوئے ہیں جن میں سے بیشتر واقعات میں حکومت کی جانب سے کسی قسم کی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی، بیشتر واقعات کو پریس کلب یا پھر میڈیا ہاؤسز کی سطح پر ہی حل کیا گیا جس کے باعث آئے روز صحافیوں کو دھمکیاں ملنے اور حملوں کے واقعات رونما ہو رہے ہیں۔
گزشتہ تین سال کے دوران پشاور اور دیگر قریبی اضلاع میں صحافیوں کو زدوکوب کرنے، دھمکیوں، حملوں اور میڈیا کوریج سے روکنے کے متعدد واقعات پیش آئے ہیں؛ خیبر یونین آف جرنلسٹس کے صدر ناصر حسین کے مطابق یونین کی سطح پر ایک کمیٹی بنائی جاتی ہے جس میں اس قسم کے واقعات کو حل کرنے اور ان کے سدباب سے متعلق لائحہ عمل بنایا جاتا ہے جس میں پولیس کے ساتھ رابطہ کر کے باہمی رضامندی سے صحافیوں کو درپیش مسائل کو حل کیا جاتا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر قانونی راستے اختیار کئے جائیں تو اس میں بہت وقت لگتا ہے، پختون معاشرہ میں ہر قسم کے مسئلہ کو حل کرنے کے لیے جرگہ کی مدد لی جاتی ہے، صحافیوں کا تحفظ یونین اور پریس کلب کی ذمہ داری تو ہے لیکن میڈیا ہاؤسز پر بھی اپنے ملازمین کو تخفظ فراہم کرنے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے، بیشتر میڈیا ادارے اپنے ورکر کی دوران ڈیوٹی فوتگی پر اعلانات تو کرتے ہیں مگر ان اعلانات کو بہت کم ہی عملی جامہ پہنایا جاتا ہے جبکہ صحافتی امور انجام دینے کے دوران پیش آنے والے تنازعات میں ادارہ اپنے ورکر کے ساتھ کھڑا نہیں ہوتا۔
پشاور میں ڈیوٹی کے دوران صحافیوں پر ہونے والے حملوں یا دھمکیوں کی بات کی جائے تو بیشتر واقعات میں ایف ائی آرز ہی درج نہیں ہوئی ہیں، پاکستان میں حکومت اور میڈیا ہاؤسز کی جانب سے صحافیوں کے تحفظ کے لیے کوئی احتیاطی تدبیر اختیار نہیں کی جاتی، جاں بحق ہونے والے صحافیوں کی ایف آئی آر درج کرانے سے لے کر ان کے مقدمات کی پیروی تک صحافتی ادارے متاثرین کی کوئی مدد نہیں کرتے۔
پاکستان پریس فاؤنڈیشن کی جانب سے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق سال 2002 سے لے کر اب تک پاکستان میں 76 صحافی جان کی بازی ہار گئے جن میں سے 28 صحافی بم دھماکوں میں جاں بحق ہوئے ہیں؛ 76 صحافیوں میں سے خیبر پختونخوا میں 28، بلوچستان میں 21، پنجاب 5، سندھ میں 18 اور اسلام آباد میں 3 صحافی قتل بھی ہوئے ہیں۔
اس طرح سال 2002 تک صحافیوں پر 384 حملے ہوئے ہیں جن میں سال 2012 سے 2022 تک 264 جبکہ گزشتہ ایک سال کے دوران 89 حملے شامل ہیں؛ 2002 سے 2012 تک 45 صحافیوں کا اغوا کیا گیا جبکہ 149 صحافیوں کو جسمانی اور زبانی طور پر دھمکایا گیا۔
رواں برس پشاور میں صحافیوں کو ریلیوں اور جلسوں میں سیاسی کارکنوں کی جانب سی بھی تشدد اور ہراسگی کا سامنا رہا۔ 7 جون 2022 کو فری لانس فوٹو جرنلسٹ اقبال ماموند کو جمعیت علما اسلام کے رضاکاروں کی جانب سے نہ صرف تشدد کا نشانہ بنایا گیا بلکہ ان کا کیمرہ بھی توڑ دیا گیا تھا۔
اس سلسلے میں فوٹو جرنلسٹ اقبال ماموند سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ جمعیت علما اسلام کی سالانہ کانفرنس کی کوریج کے دوران ڈیوٹی سرانجام دینے گئے تھے، میڈیا اور وی وی آئی پیز کے لئے بنائے گئے راستہ پر کافی رش بڑھ گیا تھا اور رضاکار کارکنانوں کو کنٹرول نہیں کر پا رہے تھے اور اسی دوران دھکم پیل شروع ہوئی، ”مغرب کا وقت تھا اور اس منظر کو عکس بند کرنے کے لئے جیسے ہی میں نے فلش لائٹ کی روشنی میں تصویر بنائی تو جمعیت علما اسلام کے کارکن جن کی تعداد دس سے بارہ تھی میری طرف دوڑے اور مجھ سے کیمرہ چھینے کی کوشش بھی کی اور مجھ پر تشدد شروع کر دیا کہ میں نے تصویر کیوں بنائی ہے، اس دوران کھینچاتانی میں میرا کیمرہ بھی ٹوٹ گیا۔”
انہوں نے کہا کہ اس دوران ان کے ساتھ ان کا بیٹا بھی موجود تھا، جب اس نے مجھ پر تشدد ہوتے دیکھا تو وہ بہت زیادہ پریشان ہو گیا اور چلانا شروع کر دیا تاہم واقعہ کی فوری اطلاع صحافیوں کے وٹس گروپس اور یونین اور پریس کلب کے صدر کو دی، اس دوران باوجود تشدد کے میں کانفرنس کی کوریج بھی کرتا رہا، بعد میں یونین اور پریس کلب کی جانب سے مشترکہ کمیٹی بنائی گئی تاکہ جمعیت علما اسلام کے صوبائی رہنماؤں کے سامنے یہ سارا معاملہ اٹھایا جا سکے، ”کچھ دن کے بعد جمعیت علما اسلام کے صوبائی سیکرٹری اطلاعات عبدالجلیل جان پشاور پریس کلب آئے اور میرا جو نقصان ہوا تھا اس میں تھوڑی سے ادائیگی کی البتہ تشدد کے واقعے پر پھر بھی کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔”
ایک جانب صحافی انتہائی کم تنخواہ میں بم دھماکوں، حادثات اور قدرتی آفات میں فرنٹ لائن پر رہ کر فرائض سرانجام دیتے ہیں، ایسا کرتے ہوئے اکثر اوقات انہیں جانی اور مالی نقصان اٹھانا پڑتا ہے تو دوسری جانب ان کے دکھوں کا مداوا کرنے کیلئے حکومتی سطح پر اور نہ ہی میڈیا ہاؤسز اور صحافتی تنظیموں کی جانب سے خاطرخواہ انتظامات کئے جاتے ہیں اس کے باوجود پشاور کے بیشتر صحافی انتہائی غیرموافق حالات میں اپنے صحافتی فرائض انجام دینے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومتی سطح پر صحافیوں کے تخفظ کے لئے قانون سازی کی جائے، اسی طرح صحافتی تنظیموں کو بھی صحافیوں پر تشدد کے واقعات پر مناسب کارروائی کرنی چاہیے اور ان کا بھرپور ساتھ دینا چاہیے جبکہ میڈیا ہاؤسز کو بھی صحافیوں کی مراعات کیلئے خاطرخواہ اقدامات کئے جائیں۔
نوٹ: یہ سٹوری پی پی ایف فیلوشپ کا حصہ ہے۔