مشکلات کے باوجود پہلا قدم تبدیلی لا سکتا ہے، خیبر پختونخو کی خواتین صحافیوں کا مثالی کردار
کائنات علی
پاکستان اور خاص طور پر خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے خواتین کے لئے صحافت کرنا ایک مشکل امر ہے کیونکہ صحافت کے ساتھ ساتھ ان کو اپنے معاشرے سے بھی لڑنا پڑتا ہے۔ مشکلات اور معاشرے کے دباؤ کے باوجود نوجوان خواتین صحافی اپنی محنت اور لگن سے صحافت میں اپنی قابلیت کا لوہا منوا رہی ہیں۔
ان نڈر خواتین میں سے ایک نام رضیہ محسود کا بھی ہے جن کا تعلق جنوبی وزیرستان کی تحصیل لدھا سے ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ صحافت میں آنے کی وجہ یہ ہے کہ جب جنوبی وزیرستان میں دہشت گردی کے خلاف آپریشن کے دوران لوگ بے گھر ہوئے، خواتین سب سے زیادہ متاثر ہوئیں، آپریشن کے دوران بیشتر خواتین آپس میں مسئلے بیان کرتی تھیں، وہ مسائل کسی قیامت سے کم نا تھے، کئی خواتین بارودی مواد کی زد میں آ کر شہید ہو گئیں، پیدل سفر اور بھوک سے لوگ بے حال تھے۔
رضیہ نے کہا کہ وہ قومی اور بین الاقوامی میڈیا دیکھتی تھیں تو وہاں صرف دہشت گردی کے واقعات رپورٹ ہوتے تھے، ان متاثرین کی روداد کوئی نہیں سنا رہا تھا، ان کے مسائل پر بات نہیں ہو رہی تھی، ہماری خواتین جو خیموں میں رہ رہی تھیں ان کی بہت مشکلات تھیں لیکن اس پر بات نہیں ہو رہی تھی تو میں نے فیصلہ کیا کہ اب اس فیلڈ میں آنا ہے اور یہ بڑا مشکل فیصلہ تھا، کوئی پلیٹ فارم نہیں تھا ایسے میں ٹرائبل نیوز نیٹ ورک کا ایڈ دیکھا اور اس کے لیے اپلائی کیا، انہوں نے موبائل جرنلزم کی ٹریننگ دی اور باقاعدہ طور پر کام شروع کرنے کو کہا۔
انہوں نے کہا کہ فیلڈ میں کام تقریباً ناممکن تھا، لیکن میں نے یہ چیلنج قبول کیا کہ کسی نے تو اس فیلڈ میں آنا ہے، خواتین کی آواز تو اٹھانی ہے۔ رضیہ کا بتانا تھا کہ وزیرستان جیسے علاقے میں صحافت کرنا بڑا مشکل تھا، یہاں لوگوں کا خیال ہے کہ خواتین پہلے تو گھر میں ہی رہیں گی لیکن اگر نکلنا ہے تو صرف شعبہ صحت اور تعلیم میں کام کریں۔
رضیہ کا کہنا تھا کہ پہلے دو سال حد سے زیادہ تنقید برداشت کی، ان کی ذات پر حملے ہوئے، آن لائن ہراسانی اور زیادہ تنقید کی وجہ سے سسرال والوں نے میڈیا چھوڑنے کا کہا، معاشرے کا پریشر جو برداشت نہ کر سکے، بہت مشکل وقت تھا۔
انہوں نے کہا کہ مقامی سطح پر جب لوگوں نے میرا کام دیکھا اور اس کے مثبت اثرات دیکھے تو وہی لوگ جو تنقید کرتے تھے مجھ پر فخر کرنے لگے، اب لوگ کہتے ہیں کہ آپ وزیرستان کی نہیں پورے پاکستان کا فخر ہو، ”2016 سے میں اس شعبے سے وابستہ ہوں، مشکلات کو برداشت کیے بغیر کامیابی ممکن نہیں، جب گھر والے کہتے تھے کہ ہم لوگوں کی باتیں برداشت نہیں کر سکتے تو کبھی کبھی میں مایوس ہو جاتی تھی، کہ میں ان کے لیے یہ سب کر رہی ہوں اور یہ تنقید کر رہے ہیں۔”
رضیہ نے مزید کہا کہ شروع میں انہیں گھر سے اجازت نہیں ہوتی تھی اور جب فیلڈ میں جاتی تھیں تو لوگ اکٹھے ہو جاتے تھے اور بہت حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے ۔
انہوں نے کہا، ”میں اپنے کام سے مطمئن تھی، بہت سارے ایسے مسائل ہیں جن پر لوگوں کو بولنا چاہیے لیکن وہ میڈیا پر آنے سے گھبراتے ہیں، قبائلی اضلاع میں صحافت بڑا کٹھن کام ہے، انٹرنیت اور ٹرانسپورٹ کے مسائل ہوتے ہیں، سکیورٹی کے مسائل ہوتے ہیں۔”
”خواتین کے مسائل میں 2016 کی نسبت فرق آیا ہے، اب لوگوں کی سوچ بدل رہی ہے، بہت سے لوگ خواتین کو میڈیا میں لانے کے خواہشمند ہیں، وزیرستان کی خواتین آگے آ رہی ہیں اور یہ میرے لیے فخر کی بات ہے، میں نے جو کوشش کی اور جو مشکلات برداشت کیں اس کے نتائج دیکھ کر میں پرسکون ہو جاتی ہوں، میں خواتین کو ہیغام دینا چاہوں گی کہ وہ اہنی صلاحیتوں کی بنیاد پر اپنے راستے کا تعین کریں تو گھر اور علاقے والوں کو فائدہ پہنچا سکتی ہیں، ہزاروں فیلڈ ہیں وہ جس میں بھی جانا چاہتی ہیں جا سکتی ہیں لیکن ہمت اور محنت شرط ہے، مجھے یقین ہے کہ قبائلی اضلاع کی خواتین ہر فلیڈ میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا سکتی ہیں۔” رضیہ نے بتایا۔
ایک اور صحافی جمائمہ آفریدی جن کا تعلق ضلع خیبر سے ہے اور ایک فری لانس صحافی ہیں، ان کا کہنا تھا کہ وہ مختلف میڈیا اداروں کے ساتھ کام کرتی ہیں جن میں ٹی این این، وائس پی کے ڈاٹ نیٹ، دی فرائی ڈے ٹائم اور اس کے علاوہ مختلف بین الاقوامی صحافتی اداروں کے ساتھ کام کر رہی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ خاتون صحافی کو نہ صرف آن لائن بلکہ گراؤنڈ پر بھی مسائل درپیش ہیں کیونکہ خاتون کو اسکرین پر دیکھنا خاص کر پشتون خواتین کو اور پھر ضم شدہ اضلاع کی مشکل بلکہ ناممکن ہے لیکن وہ خود کو خوش قسمت سمجھتی ہیں۔
جمائمہ نے مزید کہا کہ پہلے انہیں کافی مشکلات کا سامنا تھا کیونکہ اس وقت پروفیشنل مشکلات بھی ہوتی ہیں، لوگوں سے بھی ہوتی ہیں، جس طرح کا رویہ خواتین سے اپنایا جاتا ہے، سامعین کے دیکھنے کا جو نظریہ ہے یا وہ جو جس طرح سے تنقید کا نشانہ بناتے ہیں تو اس سے ذہنی دباؤ بھی ہوتا ہے لیکن وقت کے ساتھ لوگ ان چیزوں سے آشنا ہو جاتے ہیں اور سب کو سمجھنے کے لئے بارڈر بنا لیتے ہیں۔
ان کا بتانا تھا کہ ایوارڈ کی بات جائے تو بین الاقوامی مذہبی آزادی کے اوپر سٹوری پر انہیں ایوارڈ دیا گیا ہے، تعمیری صحافت میں بھی کامیاب صحافی قرار پائیں، ینگ جرنلسٹس ایوارڈ جو کہ برطانیہ سے دیا جا رہا تھا اس میں واحد خاتون صحافی تھی جو ان چھ امیدواروں میں سے تھیں جو ایوارڈ کے لئے نامزد ہو گئی تھیں۔
سینئر صحافی اور پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے قائم مقام صدر شمیم شاہد نے خیبر پختونخوا میں اس معاملے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ خواتین صحافیوں کی کم تعداد کی بنیادی وجہ یہاں زرائع ابلاغ کے اداروں کی عدم دلچسپی ہے، وہ کہتے ہیں کہ یہاں زرائع ابلاغ کے ادارے کم ہیں اور جو ہیں تو ان کا فوکس پنجاب اور اسلام آباد پر ہے۔
شمیم شاہد کے مطابق دوسری وجہ یہ ہے کہ خواتین صحافت کی ڈگری لینے کے بعد فیلڈ میں کام کرنے کی بجائے یا تو ٹیچنگ شروع کرتی ہیں یا کسی اور سیکٹر میں چلی جاتی ہیں کیونکہ خیبر پختونخوا میں صحافت کرنا ایک کٹھن کام ہے، دوردراز علاقوں میں جانا پڑتا ہے جو خواتین کے لیے مشکل ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قبائلی اضلاع سے اب کچھ خواتین صحافت کی میدان میں آئی ہیں جو کہ خوش آئند امر ہے۔
ان کا بتانا تھا کہ اگر آپ دیکھیں تو پچھلے پچاس سال سے ان علاقوں میں دہشت گردی اور مذہبی انتہاپسندی ہے، وہاں مرد صحافی علاقہ چھوڑنے پر مجبور ہیں تو ان حالات میں خواتین کیسے کام کریں گی۔
شمیم شاہد نے کہا کہ اگر خیبر پختونخوا میں خواتین صحافیوں کی تعداد بڑھانی ہے تو اس کے لیے زرائع ابلاغ کے اداروں کو خیبر پختونخوا پر توجہ دینی ہو گی، نجی ادارے اگر یہاں مرکزی دفاتر نہیں کھول سکتے تو یہاں کے مسائل پر یہاں پروگرام کریں۔ انہوں نے کہا کہ ہم کوشش کر رہے ہیں اور صحافیوں کے تحفظ یقینی بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں لیکن اس میں حکومتی اداروں کا تعاون ضروری ہے۔
محکمہ اطلاعات کے ترجمان انصار خلجی کا اسے معاملے پر بات چیت کرتے ہوئے بتانا تھا کہ صحافیوں کو مختلف طریقوں سے سہولت فراہم کرنے کے لیے ان کا محکمہ ہمیشہ موجود رہا ہے، اس وقت ہمارے پاس صحافیوں کے لیے بہت سی فلاحی سکیمیں ہیں۔ ان کا بتانا تھا کہ طبی معاوضہ 1 لاکھ تک، 10 لاکھ تک کا شہداء پیکج، جنازے کی گرانٹ 50 ہزار تک، پلاٹ اور میڈیا کالونیاں، شادی کی گرانٹ 2 لاکھ تک اور صحافیوں کے لیے اندرون ملک دورے، لہذا تمام سہولیات خواتین صحافیوں کو بھی یکساں طور پر فراہم کی گئی ہیں۔
ان کا بتانا تھا کہ جہاں تک سماجی رکاوٹوں کا تعلق ہے پریس کلب اور یونین اس طرح کے مسائل پر غور کرنے کے لیے موزوں ادارے ہیں لیکن جہاں تک انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کے کردار کا تعلق ہے وہاں کوئی فرق یا امتیاز نہیں ہے اور سب سے مثبت بات یہ ہے کہ ہم خواتین صحافیوں کے ساتھ برابری کا سلوک کرتے ہیں، خواتین صحافی بھی مرد صحافیوں کو فراہم کی جانے والی تمام سہولیات کی برابر کی حقدار ہیں۔