چارسدہ: سیلاب سے متاثرہ کاشتکاروں میں بیج کی تقسیم پر سوالات کیوں؟
طیب محمد زئی
28 اگست 2022 کو آنے والے سیلاب نے چارسدہ میں جہاں آبادی کو بری طرح سے متاثر کیا وہیں ہزاروں ایکڑ زمین پر کھڑی فصلوں کو بھی شدید نقصان پہنچایا جس کے بعد محکمہ زراعت، ضلعی انتظامیہ، محکمہ مال اور فوڈ اینڈ ایگریکلچر (ایف اے او) آرگنائزیشن نے متاثرہ زمینوں کا سروے کیا اور کاشت کاروں کی ایک لسٹ بنائی جسے منظوری کے بعد ایف اے او کے حوالہ کیا گیا جس میں ایف اے او والوں نے 4 ہزار کے لگ بھگ زمینداروں کو گندم کے تخم اور کھاد دے دی تاہم سوالات اُس وقت اٹھنے لگے جب گندم کے بیج اور کھاد کی تقسیم شروع ہوئی۔
یونین کونسل آگرہ چارسدہ میں تقسیم خیالی کے مقام پر ایک ذاتی حجرے میں ہوئی جس میں 19 سو کے لگ بھگ کاشت کاروں میں بھیج اور کھاد تقسیم کی گئی لیکن اس دوران معلوم ہوا کہ ایسے افراد نے بھی بیج اور کھاد لی جن کی ایک مرلہ زمین بھی نہیں تھی اور اُن کاشت کاروں کو ایک بھی دانہ نہیں ملا جن کی کئی ایکڑ زمینیں تھیں۔ وجہ معلوم کرنے کے لیے جب زمینداروں نے محکمہ زراعت کے دفتر کا رخ کیا اور اس ناانصافی پر احتجاج کیا تو معلوم ہوا کہ جو فہرستیں محکمہ زراعت چارسدہ نے ایف اے او والوں کو دی تھیں ان میں کٹوتی کی گئی تھی اور بہت سے ناموں کو کاٹا گیا تھا جبکہ کئی کاشتکاروں کے بیج اور تخم کے ٹوکن بھی گم ہو گئے تھے جن کے نام لسٹ میں موجود تھے۔
دوران تقسیم جن غیرمتعلقہ مرد اور خواتین نے بیج اور کھاد حاصل کی اُسی وقت اُن افراد نے اپنے بیج اور کھاد کا پورا پیکج بازار یا دوسرے کاشت کاروں کے ہاتھ فروخت کر دیا۔
محکمہ زراعت چارسدہ نے پھر میڈیا کے ذریعے اُن کاشت کاروں کو مطلع کیا جن کے نام رہ گئے تھے اور یا وہ سروے کے دوران رہ گئے تھے تو عالمی ادارہ خوراک، ورلڈ فوڈ پروگرام کے تعاون سے صوبائی حکومت نے مزید گندم کے بیج اضلاع کو دیئے جس میں تقریباً 16 سو کے لگ بھگ تخم کی بوریاں چارسدہ کو ملیں لیکن اس بار محکمہ زراعت چارسدہ نے زمینداروں کے لیے زمین کے کاغذات کی شرط رکھ دی جس کی وجہ سے صرف حقدار تک گندم کے بیج ملنا شروع ہو گئے۔
علاوہ ازیں کاشتکاروں کی جانب سے سرویز پر اعتراضات اٹھائے گئے اور کہا گیا کہ یہ سرویز ٹھیک نہیں ہوئے ہیں کیونکہ ایسے افراد نے بھی اپنے آپ کو زمیندار ظاہر کیا ہے جن کی ملکیت میں سرے سے کوئی زمین ہی نہیں تھی اور نہ ہی کسی کی زمین کو کاشت کرتے تھے۔
کمال کی بات یہ ہے کہ خیالی چارسدہ کے ایک بڑے زمیندار سردراز خان کے حجرے میں یہ تقسیم ہوئی تھی لیکن لسٹ میں نہ اُن کا نام تھا اور نہ اُن کے خاندان کے کسی اور فرد کا نام تھا جس پر انہوں نے دیگر زمینداروں کے ساتھ مل کر احتجاج بھی کیا لیکن ان کا احتجاج کوئی رنگ نہ لایا۔
اب زمینداروں کا یہ مطالبہ ہے کہ محکمہ زراعت ازسرنو ایک مکمل اور شفاف سروے کروائے تاکہ مستحق کاشت کاروں کو فائدہ پہنچ سکے۔ محکمہ زراعت چارسدہ کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت 13 ہزار ایکڑ کے قریب زمین سیلاب سے متاثر ہوئی ہے جس سے زمینداروں کو اربوں کا نقصان پہنچا ہے۔
کاشتکاروں کو گندم کے بیج اور کھاد کے علاوہ بھی کئی مسائل کا سامنا ہے جن میں زمینوں کی ہمواری اور آپباشی کے لیے قائم واٹر چینلز کی مرمت بھی شامل ہے۔
سیلاب نے جہاں پر فصلوں اور باغات کو نقصان پہنچایا ہے وہاں پر زرعی زمینوں کا لیول بھی شدید متاثر کر دیا ہے جس کی دوبارہ ہمواری غریب کاشت کاروں کے لیے انتہائی مشکل ہے لہذا کاشتکار ایک طرف اگر غیرمنصفانہ تقسیم کا رونا رو رہے ہیں تو دوسری جانب سے زمینوں کو واپس لیول کرنے کے لیے بھی حکومت کی جانب دیکھ رہے ہیں لیکن حکومت نے فصلوں کی مد میں جو معاوضہ کی رقم مختص کرنے کا فیصلہ کیا ہے وہ انتہائی کم ہے، مطلب فی ایکڑ دس ہزار روپے دینے کا فیصلہ ہوا ہے لیکن ضلع چارسدہ کی انتظامیہ نے تیس ہزار روپے فی ایکڑ کی تجویز دی ہے جس میں فصل کا معاوضہ اور ہمواری دونوں شامل ہے۔
دوسری جانب زمینوں کو سیراب کرنے والے واٹر چینلز بھی سیلاب سے متاثر ہوئے جس سے آبپاشی مشکل ہو گئی ہے، کئی علاقوں میں کاشت کار اپنی مدد آپ کے تحت مذکورہ واٹر چینلز کو بحال کرنے پر لگے ہوئے ہین لیکن پھر بھی واٹر چینلز کی بحالی کے لیے حکومت سے اپیل بھی کر رہے ہیں۔
حالیہ سیلاب نے منڈا ہیڈ ورکس کے ساتھ ساتھ دریائے سوات کے دونوں جانب قائم واٹر چینلز بھی شدید متاثر کر دیئے ہیں کیونکہ شولگرہ اور دوآبہ کی ہزاروں ایکڑ زمینوں کو سیراب کرنے کے لیے کاشت کاروں نے اپنی مدد آپ کے تحت دریا سوات سے پانی کے چینلز حاصل کیے ہیں جو حالیہ سیلاب سے بری طرح متاثر ہوئے اور اب جن کی بحالی پر لاکھوں روپے لاگت آتی ہے اور ظاہر سی بات ہے کہ سیلاب سے متاثرہ کاشت کار یہ لاگت یا بوجھ اٹھانے کے متحمل ہرگز نہیں ہیں۔