”گھر بنائیں تو وہیل چیئر کیلئے ریمپ ضرور تعمیر کریں”
رفاقت اللہ رزڑوال
"میں اور کچھ نہیں چاہتا بس یہ چاہتا ہوں کہ ہمیں مساجد، سرکاری دفاتر اور جہاں سے بھی نارمل افراد کی ضروریات پوری ہو وہاں پر ہمیں رسائی کیلئے سہولیات فراہم کی جائیں۔”
یہ ضلع چارسدہ میں معذور افراد کی تنظیم فرینڈز آف پیراپلیجک کے کوارڈی نیٹر عادل خان کا مطالبہ ہے۔ عادل خان خود اپنے دونوں پاؤں سے معذور ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ہر سال 3 دسمبر کو سرکاری سطح پر معذوروں کا عالمی دن منایا جاتا ہے مگر وہ صرف سرکاری تقریب تک محدود ہوتا ہے اور ان کے مسائل کے حل کو عملی جامہ نہیں پہنایا جاتا ہے۔
عادل کا کہنا ہے کہ جب وہ مسجد میں نماز پڑھنے جاتے ہیں تو انہیں مسجد تک پہنچنا مشکل ہوتا ہے، ”اسی طرح میں اُن تمام معذور افراد کے رشتہ داروں سے بھی اپیل کرتا ہوں کہ جب وہ گھر کی تعمیر کریں تو ان کے لئے وہیل چیئر کا ریمپ ضرور بنائیں۔”
یہ مطالبہ صرف عادل کا نہیں بلکہ ضلع چارسدہ میں رجسٹرڈ 13 ہزار معذور افراد کا بھی ہے جن میں جسمانی، نفسیاتی اور بصارت سے محروم افراد شامل ہیں۔
چارسدہ میں معذور افراد کی فلاح و بہبود کے ادارے سوشل ویلفیئر میں 3 دسمبر کو یوم عالمی معذور کے حوالے سے ایک پروقار تقریب کا انعقاد کیا گیا جس کا مقصد معاشرے میں معذور افراد کے ساتھ سماجی رویوں میں مثبت تبدیلی اور ترقی میں کردار ادا کرنے کے مواقع دینے کی کوشش تھا۔
وہیل چیئر پر بیٹھے پشاور سے تعلق رکھنے والے جسمانی معذور انجینئر عرفان نے ٹی این این کو بتایا کہ ان کے ساتھ انجینئرنگ کی ڈگری موجود ہے مگر ان کے لئے حکومت کی جانب سے 4 فیصد امپلائی کوٹے پر عمل درآمد نہیں ہو رہا ہے۔
عرفان کہتے ہیں "حکومت کے اس دعوے پر ریسرچ کی تھی جس میں 38 محکموں کا جائزہ لیا گیا تھا جہاں پر امپلائی کوٹے پر صرف اعشاریہ 68 فیصد عمل درآمد کیا جاتا ہے جو حکومت کے دعوؤں کی نفی تھی۔”
انہوں نے کہا کہ جہاں تک معذور افراد کی رسائی کی بات ہے تو ہر ضلع کے ڈپٹی کمشنر کے پاس قانون کے مطابق اختیار ہوتا ہے کہ وہ ایسے نقشے پاس کریں جن میں سرکاری اور نجی عمارتوں میں ریمپ تعمیر کرنے کا ذکر ہو مگر یہاں تک یہ دعوے اسی دن کی مناسبت سے ہوتے ہیں لیکن عمل درآمد بہت کم ہوتا ہے۔
معذور افراد کے ساتھ سماجی رویے
اس حوالے سے چارسدہ کی باچا خان یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر محمد کلیم کا کہنا ہے کہ اس دن کا مقصد معذور اور نارمل افراد کا مل کر فکری اور ٹیکنالوجی کی مد میں ترقی کرنا ہے مگر کلیم نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اب تک معذور افراد کے حوالے سے رویوں میں مثبت تبدیلیاں موجود نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ معذور افراد کے حوالے سے کئی قوانین موجود ہیں اور اُس سے لگتا ہے کہ پاکستان معذور افراد کیلئے جنت جیسا ہے مگر درحقیقت اس پر عمل درآمد نہیں ہو رہا ہے۔
ڈاکٹر محمد کلیم کی تجویز ہے کہ معذور افراد کے ساتھ سلوک، رویوں، اور ان کے حقوق کے بارے میں جتنی بھی ہدایات ہیں وہ سرکاری عمارتوں، چوراہوں اور گلیوں میں بینرز اور فلیکس کے ذریعے چسپاں کئے جائیں تاکہ ہر شخص کے ذہن میں ان کی تکریم ہو۔
مگر سوال یہ ہے کہ کیا حکومتی سطح پر ان معذور افراد کیلئے اقدامات اُٹھائے جا رہے ہیں تو اس حوالے سے سوشل ویلفیئر ڈپارٹمنٹ کے ڈسٹرکٹ آفیسر محمد شعیب نے ٹی این این کو بتایا کہ بنیادی طور پر معذور افراد کو رسائی کا مسئلہ ہے اور اس پر پروگرام میں موجود ڈی سی نے ٹی ایم ایز کو حکم دیا ہے کہ سرکاری اور نجی نقشوں میں ریمپ کی ضرورت کو مدنظر رکھیں اور اس کے بغیر کوئی بھی نقشہ پاس نہیں ہو گا۔
محمد شعیب کا کہنا ہے کہ ڈپٹی کمشنر کی سربراہی میں تمام محکموں سے نمائندگان پر مشتمل کمیٹی بنائی جائے گی جس کا کام معذور افراد کیلئے سرکاری یا غیرسرکاری نوکریوں میں دو فیصد کوٹہ پر عمل درآمد کرنا ہو گا۔
ان کا کہنا تھا کہ جس ادارے میں معذور افراد کو شکایات ہوں تو وہ ایک درخواست دے سکتے ہیں اور انہیں شکایت کے ازالے کی ہدایات دی جائیں گی، اگر پھر بھی عمل درآمد نہیں ہوتا تو اس ادارے کے خلاف صوبائی کونسل کو ایکشن لینے کی درخواست کی جائے گی۔
ڈسٹرکٹ آفیسر کے مطابق ان کے پاس اس وقت 13 ہزار افراد رجسٹرڈ ہیں جن میں کافی تعداد موجود نہیں لیکن مزید معذور افراد کی رجسٹریشن کیلئے تینوں تحصیلوں میں مراکز قائم کئے جا رہے ہیں تاکہ وہ چارسدہ میں مین آفس آنے کی بجائے اپنی ہی تحصیل میں خود کو رجسٹرڈ کرائیں۔