ہم جنس پرستی، ایڈز اور الماس بوبی کا دعویٰ
عبدالمعید زبیر
یکم دسمبر کو ہر سال ایڈز سے آگاہی کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس کا مقصد لوگوں کو اس سے بچانا اور محفوظ رکھنا ہے۔ اسی سلسلے میں دنیا بھر میں مختلف تقریبات و سیمینارز کا انعقاد اور اہتمام کیا جاتا ہے جن میں حالات کی سنگینی کا جائزہ لیا جاتا ہے، تحقیقاتی اور تجزیاتی رپورٹس پیش کی جاتی ہیں اور مستقبل کا لائحہ عمل طے کیا جاتا ہے۔
دنیا بھر میں اس دن کو پہلی مرتبہ 1987 میں منایا گیا مگر اس کے تیزی سے پھیلاؤ کو روکنے اور اس کے معالجے کو وسعت دینے کی خاطر 2000 میں اقوام متحدہ کی جانب سے دنیا بھر میں لوگوں کو آگاہی ملی۔ اس مہلک بیماری کا پہلا مریض 1980 میں تشخیص ہوا مگر اب تک اس کا کوئی تسلی بخش یا یقینی علاج دریافت نہیں ہوا۔ کچھ لوگ اس سے صحت یاب ہوئے ہیں مگر یہ طریقے نہ تو یقینی علاج ثابت ہوئے نہ ہی مکمل قابل اعتماد ہیں۔ تاہم اس مہلک مرض کے علاج کے لیے تجربات اور تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے۔
ایڈز جنوبی افریقہ، امریکہ، آسٹریلیا، انڈیا، تنزانیہ، نائجیریا وغیرہ سمیت کئی ممالک میں بہت تیزی سے پھیل چکا ہے۔ وائس آف امریکہ کی رپورٹ کے مطابق تقریباً تین کروڑ اسی لاکھ لوگ اس بیماری کا شکار ہو چکے ہیں۔ اس وقت سب سے زیادہ تعداد بھی امریکہ میں ہی پائی جاتی ہے۔ امریکی ادارے "پیپ فار” نے بہت تیزی سے کام کیا۔ تقریباً اٹھارہ سال کے اندر دو کروڑ لوگوں کو بچانے کا دعویٰ کیا ہے۔ "پیپ فار” نے امریکہ کے علاوہ دیگر کئی ممالک کو بھی ایڈز پر معاونت فراہم کی اور 2020 میں ایک سال کے اندر تقریباً ایک کروڑ 72 لاکھ لوگوں کو ادویات فراہم کیں۔ 2021 میں امریکی صدر نے اپنے بیان میں یہ دعویٰ کیا کہ اس کی روک تھام کے لیے امریکہ نے 670 ملین ڈالر فراہم کیے ہیں۔ اور 2030 تک اس مرض کو دنیا سے ختم کرنے کا عزم ظاھر کیا۔ امریکی صدر کے بیان کے مطابق پیپ فار منصوبے کے ذریعے اب تک 21 ملین سے زائد لوگوں کی زندگیاں بچائی گئی ہیں، لاکھوں لوگوں کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔
موقر جریدے ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق چالیس سالوں میں 77 ملین لوگ اس سے متاثر ہوئے اور 35 ملین لوگ اسی مرض کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔
اب اگر ایڈز کی سب سے بنیادی وجہ دیکھی جائے تو وہ جنسی بے راہ روی ہے۔ جس میں پورن انڈسٹری کا بھی بڑا کردار ہے۔ دوسرا اہم سبب ہم جنس پرستی ہے۔ اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ صحت کی سال 2000 میں شائع کردہ عربی مطبوعات کے مطابق مختون (ایسے افراد جن کے ختنے ہوئے ہوں) کو ایڈز کے خطرات نسبتاً کم ہوتے ہیں۔
عالمی پالیسیوں کی دورخی بھی کمال ہے، ایک طرف ایڈز کا رونا رویا جاتا ہے تو دوسری ہم جنس پرستی اور پورن انڈسٹری کو فروغ دیا جاتا ہے۔ ڈنمارک، آسٹریلیا، پولینڈ، سویڈن اور امریکہ سمیت کئی ممالک پورن انڈسٹری کے فروغ میں پیش پیش ہیں۔ اب تو فوجی اداروں میں ہم جنس پرست مردوں اور عورتوں (lesbian & gay) کو کھلے عام خدمات کی اجازت دی جاتی ہے۔ نیٹو میں شامل بیس ممالک انہیں "خدمت” کی اجازت دیتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل ارکان میں سے تین ( برطانیہ، فرانس، امریکہ) لیسبیئن اور ہوموسیکشول لوگوں کو خدمت کی اجازت دیتے ہیں۔ اسرائیل مشرقی وسطیٰ کا وہ واحد ملک ہے جو اپنی فوج میں ہم جنس پرستوں کو کھلے عام اجازت دیتا ہے۔ اور اب غیرملکی این جی اوز پاکستان میں ہم جنس پرستی کے فروغ کے لیے سرتوڑ کوششیں کر رہی ہیں۔ موقر جریدے دی نیوز میں شائع تازہ ترین رپورٹ کے مطابق اسلام آباد میں ایڈز کے مریضوں کی تعداد میں کافی حد تک اضافہ ہو رہا ہے جس میں زیادہ تر ہم جنس مرد، اور ٹرانسجینڈرز شامل ہیں۔
پاکستان میں ایک طرف تو ٹرانس جینڈرز کے حقوق کے نام پر عرصہ دراز سے ہم جنس پرستی کے فروغ اور قانونی تحفظ کی مذموم کوشش کی جا رہی ہے جبکہ دوسری طرف ایڈز کے پھیلاؤ کا رونا رویا جا رہا ہے۔ جب بات ایسے عناصر پر پابندی عائد کرنے کی جائے تو مین اسٹریم سیاسی جماعتیں مدمقابل کھڑی نظر آتی ہیں۔ ٹرانسجینڈر ایکٹ کی مخالفت کو ان کی حقوق سلبی کا مترادف گردانتی ہیں۔
2004 کی National Study of Reproductive tract Infections کی رپورٹ کے مطابق لاہور اور کراچی سے چار سو ہیجڑوں اور ان کے گوروؤں کو ریسرچ کے لیے منتخب کیا گیا۔ تحقیق سے پتہ چلا کہ ان میں سے 397 افراد مرد ہیں اور ان کے ختنے بھی ہوئے ہیں۔ جب ان کے ٹیسٹ کیے گئے تو ان کی رپورٹ میں ایڈز بھی مثبت پایا گیا۔ 2004 میں کراچی اور لاہور میں ایڈز کی شرح بالترتیب 0.5 فیصد اور 1.5 فیصد تھی، جو کہ 2008 میں بالترتیب 3.6 فیصد اور 2.5 فیصد ہو گئی۔ یہ ریسرچ پاکستان میڈیکل ریسرچ کونسل کے تحت ہوئی جس میں فاطمہ جناح میڈیکل کالج، فیملی ہیلتھ انٹرنیشنل، شوکت خانم ہسپتال اور سندھ اسنٹی ٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن کراچی شریک تھے۔ ان چار سو ہیجڑوں کی مکمل پرائیویسی کا خیال رکھا گیا اور انٹرنیشنل سطح کی تحقیقات کی گئیں جس کے مطابق تیرہ سے پچاس سال کے ان چار سو لوگوں میں 397 مرد تھے۔ جن کے جسم پر اس عمل کی وجہ سے مسے بھی پائے گئے تھے۔ اس کے علاؤہ اورل سیکس کی علامات بھی ملیں۔ یہ رپورٹ J Pak med assoc کے والیم نمبر 61 جولائی 2011 میں شائع ہو چکی ہیں۔
ایک اور ریسرچ جو صرف لاہور پر کی گئی اور خاص اسی لیے کی گئی تاکہ ایڈز کی شناخت کے ساتھ ساتھ جنسی معاملات اور کنڈوم کے استعمال کو جانا جائے جس کے لیے تجربہ کار ٹیم نے خدمات سرانجام دیں۔ اس میں اٹھارہ سے پچپن سال کے درمیان کے دو سو ہیجڑوں کو جمع کیا گیا جن میں ٪68 ناخواندہ افراد تھے۔ 23 فیصد لوگ شادی شدہ تھے جن کے ایک سے پانچ تک بچے بھی تھے۔ جن میں ساٹھ فیصد نے کوکین، ہیروئن اور مارفین وغیرہ کے سخت نشے شروع کر رکھے تھے اور کچھ انجکشن لگاتے تھے۔ ان ہیجڑوں میں سے آٹھ فیصد نے عورتوں کے ساتھ جنسی تعلق قائم کر رکھا تھا۔ جیسا کہ آج کل یہی ہیجڑے عورتوں کے بھیس میں تعلیم کی بنا پر ہمارے تعلیمی اداروں کا رخ کر رہے ہیں جہاں ہماری بچیاں اور بہنیں زیر تعلیم ہیں۔
ریسرچ میں شامل ان دو سو افراد میں سے 82 فیصد کے ایک ہفتے میں ایک سے اکیس نئے کلائنٹ تھے۔ جن میں اورل سیکس بھی شامل تھا اور کوئی کنڈوم استعمال نہیں کرتا تھا۔ ان میں سے دس فیصد ہیجڑوں نے جنسی تعلقات قائم کرنے کے لیے عورتوں کو رقم ادا کر رکھی تھی، جن کے ساتھ وہ جنسی تعلق قائم کر رہے تھے اور سولہ فیصد ہیجڑوں نے مردوں کو بھی رقم دے رکھی تھی۔ جن کے ساتھ وہ جنسی تعلق قائم کرتے تھے۔ ان میں سے کوئی کنڈوم کا استعمال نہیں کرتا تھا جو کہ ایڈز کے پھیلاؤ میں بڑا بنیادی کردار ادا کر رہے ہیں۔ ان ہیجڑوں میں سے 88 فیصد نے ایک ماہ میں مردوں کے ساتھ اور باقی نے عورتوں کے ساتھ جنسی تعلق قائم کر رکھا تھا۔ یہ رپورٹ بھی اسے مجلے کے 2009 کے شمارے کی ہے۔
یہ رپورٹ ملک خدا داد پاکستان کی ہے جہاں آج کل ٹرانس جینڈرز کے حقوق کی بات کی جا رہی ہے، انہیں اپنے تعلیمی اداروں میں گھسانے کی اجازت دی جا رہی ہے۔ جن کے ذریعے ہم جنس پرستی کے مذموم مقصد کو پورا کرنا ہے۔ 24 نومبر 2022 کی وفاقی شرعی عدالت کی پیشی میں الماس بوبی نے عدالت کے سامنے حلفاً اقرار کیا اور اپنا یہ بیان تحریراً بھی جمع کروایا کہ "غیرملکی این جی اوز پاکستان میں ٹرانس جینڈرز کمیونٹی کو ہم جنس پرستی کے طور پر استعمال کر رہی ہیں۔ انہیں فنڈنگ کر رہی ہیں۔ الماس بوبی کا دعویٰ ہے کہ ٹرانس جینڈرز کا ٹیسٹ کروا لیجئے۔ اگر ان کا ایڈز ٹیسٹ پازیٹیو نہ نکلے تو اسے سرعام گولی مار دی جائے۔
سوشل میڈیا ٹرانس جینڈر ایکٹیوسٹ نے اب تو یہاں تک کہنا شروع کر دیا ہے کہ "ہم جنس پرستی کیا ہوتی ہے، ہم تو محبت کو جانتے ہیں، اور محبت میں جنس ونس کچھ نہیں ہوتی” یہ ہے اصل مشن!
مذکورہ بالا ریورٹس اور موجودہ صورت حال ہمارے مستقبل کے لیے نہایت افسوس ناک ہے۔ اگر ہم اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور ایڈز جیسی مہلک بیماریوں سے بچنا چاہتے ہیں تو ہمیں جنسی بے راہ روی کا راستہ روکنا ہو گا ورنہ ہم جنس پرستی کی یہ لہر اور اس سے منسلک سماجی، معاشرتی اور جسمانی بیماریاں ہماری اقدار، نسلوں اور خاندانی نظام کو سنگین حدوں تک متاثر کر سکتی ہیں۔ بائیس کروڑ کی آبادی میں چند ہزار ہیجڑوں کی صفوں میں چھپے ہوئے تہذیب اور اسلام دشمن افراد کو پہنچاننا ہو گا۔ جو بھی ہم جنس پرستی میں ملوث پایا جائے، اس پر سزا جاری کی جائے۔ اگر اس جرم کا راستہ نہ روکا گیا تو یاد رکھیے! اللہ کے عذاب بیماری کی صورت میں ہو یا آفت کی صورت میں، اس کے لیے تیار رہنا ہو گا۔
ایڈز سے بچاؤ کا واحد رستہ اسلامی تعلیمات میں ہی مضمر ہے جس کا اعتراف اقوام متحدہ کی سال 1995 میں مطبوعہ عربی کتب اور لٹریچر میں ملتا ہے۔ اس کا اردو ترجمہ مولانا محمد بشیر سیالکوٹی نے اقوام متحدہ کو کر کے دیا اور اقوام متحدہ کے عالمی ادارے صحت (WHO) نے اسے بڑے پیمانے پر شائع کیا لیکن اب چونکہ اقوام متحدہ کی ترجیحات ٹرانسجینڈرزم کا فروغ ہے تو ایسا لٹریچر کیونکر عامة الناس تک پہنچ پائے گا؟