چارسدہ: سیلاب سے متاثرہ کاشتکار 10 ہزار معاوضے سے آج بھی محروم
انور خان
رواں برس اگست میں آنے والے سیلاب نے چارسدہ میں 11 ہزار ایکڑ اراضی پر کھڑی فصلوں کو تباہ کر دیا تھا، جس میں پانچ ہزار ایکڑ پر کاشت کی گئی گنے کی فصل بھی شامل ہے تاہم تین ماہ گزرنے کے باوجود ان سیلاب زدہ علاقوں کے کاشتکار مسائل سے دوچار ہیں۔
سیلاب سے متاثرہ کاشتکاروں کے مطابق فصل کی دیکھ بھال کے لئے انہوں نے منڈیوں اور بیوپاریوں سے پیشگی پیسے لئے تھے تاہم سیلاب کی وجہ سے وہ اب اس قابل نہیں کہ یہ رقم لوٹا سکیں۔
گنا کاشت کرنے والے زاہد جان اس حوالے سے کہتے ہیں، ”ہم نے کوئی دس جریب اراضی پر گنا کاشت کیا ہے اور یہ ساری اراضی سیلاب سے متاثر ہوئی ہے، مٹی جمع ہو گئی ہے وہاں، اب ٹریکٹر کا کام بھی ہےاس میں، ہم نے چونکہ اس کے لئے منڈیوں سے پیسے لئے ہیں، لوگوں سے اس کے لئے قرض پیسے لئے ہیں، تو حکومت کو چاہیے کہ کم از کم ایک لاکھ روپے فی ایکڑ کے حساب سے لوگوں کو پیسے دے۔”
کاشتکاروں کے ساتھ ساتھ سیلاب نے گڑ کے بیوپاریوں کو بھی متاثر کیا ہے۔ منڈی کے صدر سعید اللہ کہتے ہیں کہ ان کے پاس 150 کاشتکار ہیں ج میں سے 50 کسانوں کی گنے کی فصل سیلاب سے متاثر ہوئی ہے۔
ٹی این این کے ساتھ گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ ان متاثرین کو حکومت کی جانب سے جو معاوضہ دیا گیا ہے وہ بہت کم ہے، اگر کاشتکاروں نے وقت پر ان کے پیسے واپس نہیں کئے تو اگلے سال وہ انہیں مزید قرضہ نہیں دیں گے، ”تقریباً 28 سالوں سے میں یہ کاروبار کر رہا ہوں، گرمیوں میں یہ کسان ہمارے پاس آتے ہیں تو ہم انہیں گوڈی، مٹی اور ادویات کے لئے پیسے دیتے ہیں، یہ ہم انہیں پیشگی دیتے ہیں اور یہ بلاسود (قرضہ) ہوتا ہے، اب جو سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں انہوں نے ابھی تک گھانی بھی نہیں چلائی اور سیلاب نے ان کی ساری فصل خراب کر دی ہے۔”
چارسدہ میں دریائے سوات اور دریائے کابل کے کنارے سیلاب نے سب سے زیادہ نقصان گنے کی فصل کو پہنچایا ہے۔ حکومت نے ہر کاشتکار کو فی ایکڑ کے حساب سے دس ہزار روپے دینے کا اعلان کیا ہے تاہم کاشتکار حکومت کی اس امداد سے مطمئن نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت اور ضلعی انتظامیہ کو چاہیے تھا کہ معاوضوں کے اعلان سے قبل کو کے ساتھ بات کر لیتیں۔
زاہد جان نے اس حوالے سے بتایا، ”منڈیوں اور ایک دوسرےد سے فصل کی دیکھ بھال کے لئے ہم نے ساڑھے چار تا پانچ لاکھ روپے لئے ہیں، اب جب ہم تخمینہ لگاتے ہیں تو ہمیں یہ پیسے بھی نہیں مل رہے پھر فصل کو سنبھالنا اور اگلے سال کی فصل کا بندوبست بھی کرنا ہے اس لئے حکومت کو چاہیے کہ اس پر سنجیدگی سے غور کرے۔”
دوسری جانب محکمہ زراعت ایک اہلکار نے بتایا کہ کاشتکاروں کو ابھی تک حکومت کی جانب سے اعلان کردہ دس ہزار روپے بھی نہیں ملے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ فی ایکڑ کے حساب سے دس ہزار روپے بہت کم معاوضہ ہے۔
انہوں نے پی ڈی ایم اے حکام پر زور دیا کہ دس ہزار روپے یہ معاوضہ تیس ہزار کر دیا جائے۔