کیمیائی ہتھیار: جیتے جاگتے انسان موت کی ابدی نیند سو گئے
ارم رحمٰن
وہ معصوم لوگ جو کیمیائی ہتھیاروں کی زد میں آ گئے اور اپنی جان یا اپنے اعضاء گنوا بیٹھے؛ کوئی نہیں تھا ان کی آہ وبکا سننے والا، بے بس مظلوم صرف حکمرانوں کی ہوس اقتدار اور طاقت کے نشے کی بھینٹ چڑھنے والے، وہ بدبخت جو سوئے تو پھر اٹھ نہ سکے، جو گھروں میں ہوتے ہوئے بھی محفوظ نہیں تھے۔ کوئی حملہ آور گھر میں داخل ہوا نہ مکان گرا، ان پر گرائے گئے کیمیائی ہتھیار جن میں زہریلی گیس نے ان کے پھیپھڑوں کو ناکارہ کر دیا اور کچھ لمحوں میں ہی جیتے جاگتے انسان موت کی ابدی نیند سو گئے۔
ہر سال "30 نومبر” کو ان مظلوم محرومین کی یاد میں یہ دن منایا جاتا ہے اور اپنی اپنی جوہری طاقتوں کو مزید بڑھایا جاتا ہے۔
"جنگ” کا لفظ کسی بھی ذی شعور اور سمجھدار انسان کی رگوں میں دوڑتے گرم خون کو پل بھر میں منجمد کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ برسوں کی محنت اور کوشش سے بنائی جانے والی معیشت اور معاشرت کسی بھی اقتدار پرست کی ہوس یا دوسری کمزور ریاست پر ناجائز قابض ہونے والی حکومت چند ہی لمحوں میں مسمار کر کے ملبے کا ڈھیر بنا سکتی ہے۔
انسانی ارتقاء کے آغاز سے ہی جنگ جیسا لفظ بھی ایجاد ہو گیا؛ نام مختلف ہو گا، لڑنے کے طریقے اور ہوں گے، پہلے جسمانی طاقت کے مظاہرے ہوتے تھے پھر تلوار، برچھی، نیزے، وقت کے ساتھ ساتھ بندوق، گولیاں، کلاشنکوف، مشین گن، توپیں، میزائل پھر ایٹم بم، نائٹروجن بم، حیتیاتی بم، زہریلی گیس کا اخراج جو ساری فضا ہی آلودہ کر دے اور جہاں جہاں پہنچے وہاں انسان، چرند پرند، نباتات سب کو نیست و نابود کرتی چلے۔
اس وقت ساری دنیا میں جوہری توانائی کا زیادہ سے زیادہ حصول طاقت کا اظہار بن گیا ہے۔ یہ اپنی طاقت بڑھانے کی بجائے دوسرے ممالک کو غائبانہ دھمکی دینے کے مترادف ہے کہ ہم تم سے زیادہ طاقتور ہیں اور جب چاہیں تمھیں چٹکیوں میں مسل سکتے ہیں۔
اس وقت دنیا میں وسیع پیمانے پر قتل عام کرنے والے کیمیائی اور حیاتیاتی بم بنائے جا رہے ہیں، انہیں جوہری توانائی کا نام دیا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے سب سے زیادہ جوہری توانائی امریکہ کے پاس ہے؛ پھر روس اور ترتیب وار فرانس، برطانیہ، چین، ہندوستان اور پاکستان کے پاس، اس کے علاوہ 80 ممالک اس دوڑ میں لگے ہیں کہ وہ بھی جوہری توانائی کے مالک بن جائیں۔ اسرائیل اس حوالے سے ساری حدیں پار کر چکا ہے۔
سب سے پہلے کیمائی ہتھیار کا استعمال "جنگ عظیم اول” کے دوران ہوا۔ یہ سب سے پہلی اور سب سے بڑی جنگ تھی جو 28 جولائی 1914 سے لے کر 11 نومبر 1918 تک جاری رہی۔ اس جنگ کا آغاز یورپ سے ہوا؛ اتحادیوں۔۔ برطانیہ، فرانس، سربیا، روس، اٹلی، یونان، پرتگال، رومانیہ، ریاست ہائے متحدہ امریکہ۔۔ نے "جرمنی، آسٹریا، ہنگری” پر مشتمل مرکزی قوتوں کے خلاف لڑی۔ بعد ازاں سلطنت عثمانیہ اور بلغاریہ بھی شامل ہو گئے۔
یہ سب سے تباہ کن لڑائی مانی جاتی ہے جس میں ایک کروڑ سے زیادہ فوجی ہلاک ہوئے، 21 ملین زخمی اور معذور ہوئے لیکن یہ ایک محتاط اندازہ ہے جبکہ اس سے زیادہ ہلاکتوں اور معذورں کی تعداد متوقع ہے۔ کچھ لوگوں نے بھاگ کر جان بچا لی تھی۔
اس جنگ میں مشین گن کا استعمال پہلی بار ہوا اور کلورین گیس کا استعمال انتہائی غلط انداز سے ہوا۔ نمک سے بننے والی عام سی گیس جرمنی نے ٹنوں کے حساب سے فضا میں چھوڑی جس کے ضرر رساں اثرات مرتب ہوئے۔ اس سے انسانوں کے پھیپھڑوں کے ٹشوز ختم ہو جاتے ہیں۔ اس گیس کی موجودگی میں سانس نہیں لیا جا سکتا اور چند لمحوں میں لوگ لقمہء اجل بن جاتے ہیں۔
"جنگ عظیم دوم”۔۔ اس طویل جنگ کا آغاز جرمنی نے یکم ستمبر 1939 سے پولینڈ پر حملہ کر کے کیا اور بعد میں مزید 11 ممالک پر حملہ کیا۔ "آئسو پروپانول” نامی کیمیائی مادہ ہیمبرگ میں بنایا گیا تھا جو اس جنگ میں استعمال ہوا۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران نازی جرمنی اور اس کے اتحادیوں اور حلیفوں نے ظلم اور بربریت کی انتہا کر دی۔ اجتماعی طور پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی۔ ہٹلر کے گیس چیمبرز سے سب واقف ہیں؛ گیس سے ہلاک کرنے اور خصوصی طور پر بنائے گئے مقتل گاہ میں تقریباً ہر تین میں سے دو کو موت کے گھاٹ اتارا گیا، اس طرح کے حربوں سے تقریباً 6 ملین یورپی یہودیوں کا قتل عام کیا جسے ” ہولو کاسٹ "کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
6 سے 9 اگست 1945 کو دوسری جنگ عظیم کے دوران انسانی تاریخ کا سب سے المناک اور شرمناک انسانیت سوز واقعہ پیش آیا جب امریکہ نے جاپان کے دو بڑے شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرائے اور دیکھتے ہی دیکھتے دو سے تین لاکھ لوگوں کی جان لے لی، لوگوں کے کھڑے کھڑے ساری کھال گل کر لٹک گئی، زمینیں بنجر ہو گئیں اور جو لوگ بچے وہ معذور ہو گئے۔ خواتین بانجھ اور سب لوگ مختلف حوالوں سے عجیب طرح سے بیمار ہو گئے۔ اگلے بیس سالوں تک کوئی فصل نہیں اگ سکی اور بچے بہت کم پیدا ہوئے اور وہ بھی جسمانی نقائص کے ساتھ، ان ایٹم بموں کے مہلک اثرات ابھی تک موجود ہیں؛ برس ہا برس گزر جانے کے بعد آج بھی ان علاقوں میں بچوں کی اکثریت کسی نا کسی نقص کے ساتھ پیدا ہوتی ہے۔ جنگ تو ختم ہو گئی مگر انسانیت کے نام پر کالک مل گئی۔
2011 سے 2013 میں ایران پر بھی کیمیکل ہتھیاروں سے حملہ کیا گیا؛ ہیلی کاپٹر کے ذریعے دو ایسے ہتھیار پھینکے گئے جن میں زہریلی گیس بھری ہوئی تھی۔ اقوام متحدہ کی رہورٹ کے مطابق جس کے نتیجے میں 80 ہزار افراد ہلاک ہوئے۔
1986 سے 1989 میں عراق پر حملہ ہوا تھا اور خود وہاں کے حکمران صدام حسین نے "حلبجہ” پر کیمیائی ہتھیاروں سے حملہ کیا۔ اس حملے میں "نیپام بم” گرائے اور زیریلی گیس "سیرین، تابن، وی ایکس” جیسی اعصاب شکن گیس شامل تھی کہ 5 ہزار شہری فوراً ہلاک ہو گئے، 10 ہزار افراد بینائی سے محروم ہو گئے اور ہزاروں لوگ مختلف قسم کی معذوری اور بہت سی ہولناک پیچیدگیوں اور بیماریوں کا شکار ہو کر مرتے گئے۔ پہلی بار ہوا تھا کسی حکومت نے اپنے ہی ملک میں اپنی عوام پر ایسا حملہ کیا۔
اسی طرح ہندوستان میں "بھوپال گیس حادثہ” جہاں یونین کاربائیڈ پیسٹی سائیڈز یعنی (کرم کش) کیڑے مار ادویات بنتی ہیں۔ 2 دسمبر 1984 میں ٹاکسک اور بیماریاں پھیلانے والے بیکٹیریا کے ذریعے کیا جس کے نتیجے میں ہزاروں جانیں سوتے میں ہی ابدی نیند سو گئیں اور لاکھوں افراد آج بھی اس کے اثرات جھیل رہے ہیں۔
ان سب دلگیر اور دل سوز واقعات میں ایک بات تو واضح ہے کہ دنیاوی ترقی نے جدید ہتھیار بنا کر انسانی تنزلی کی بنیاد رکھ دی ہے؛ وقت کے ساتھ طاقت کے مظاہرے محض کچھ لاکھ لوگوں کی ہلاکت کا ہی نہیں بلکہ انسانی ذہنوں پر بھی منفی ترین اثرات ڈالتے ہیں۔ جنگ بندی کے سارے معاہدے اس وقت تک بے اثر اور بے کار ہیں جب تک ساری دنیا کبھی جنگ نہ کرنے کا مکمل خلوص نیت سے فیصلہ نہ کر لے کیونکہ عقلمندی سے کیے جانے والے مذاکرات مشکل سے مشکل معاملات کا بھی حل نکال سکتے ہیں۔ اور جب پیار سے مسئلے حل ہو سکتے ہوں تو جنگ کی کیا ضرورت ہے؟ بات ہے صرف سوچ کی!