”ان کے گھر تو لڑکیوں کی ایک لائن لگ گئی ہے”
رعناز
کچھ دن پہلے میری پھوپھی کے ہاں پانچویں بیٹی کی پیدائش ہوئی۔ گھر میں ایک بچی کی صورت میں رحمت آنے کی خوشی میں جب ہم لوگ ان کے گھر گئے تو وہاں پر ایک عجیب افسردگی والا ماحول دیکھنے کو ملا۔
گھر میں موجود سارے لوگ میری پھوپھی اور نوزائیدہ بچی کے گرد بیٹھے اپنی باتوں سے خوشی نہیں بلک ماتمی سماں باندھ رہے تھے۔
پھر بیٹی ہو گئی
”پھر بیٹی ہو گئی” کا جملہ تواتر سے دہرایا جا رہا تھا۔ قابل ذکر بات اس جملے کو ادا کرنے کا انداز تھا جس سے تاسف جھلک رہا تھا، باقی ماندہ جملوں کے تیر کچھ یوں برسائے جا رہے تھے:
ان کے گھر تو لڑکیوں کی ایک لائن لگ گئی ہے
لڑکیوں کے تو اتنے زیادہ خرچے ہوتے ہیں وہ کیسے پورے ہوں گے
اگر کوئی لڑکا پیدا نہیں ہوا تو کل کو ان کے بڑھاپے کا سہارا کون بنے گا؟
لڑکیوں کے نصیب کا تو پتہ نہیں چلتا۔۔
تو یہاں پر میں یہ سوال کرنا چاہتی ہوں کہ کیا صرف لڑکیاں ہی اپنا نصیب لکھوا کے آتی ہیں لیکن لڑکے نہیں یا لڑکوں کے نصیب ہی نہیں ہوتے؟ اور کیا صرف لڑکے ہی والدین کے بڑھاپے کا سہارا بن سکتے ہیں لڑکیاں نہیں؟
لڑکیاں والدین کے بڑھاپے کا سہارا
اگر ہم بات کریں بڑھاپے کے سہارے کی تو میرا تو ماننا یہ ہے لڑکی ہو یا لڑکا دونوں ہی یہ کام بہت اچھے طریقے سے کر سکتے ہیں۔ تربیت بہتر انداز میں کی جائے تو لڑکیاں بھی اپنا نام اور مقام بنا سکتی ہیں جو کہ والدین کے لئے فخر کا باعث ہو گا لہٰذا لڑکی کی پیدائش پر خوش ہونا چاہیے نہ کہ شکلیں بگاڑ لی جائیں۔
اولاد تو اللہ کی دین ہے جس کو چاہے بیٹیاں دیتا ہے جس کو چاہے بیٹے دیتا ہے اور جس کو چاہے بیٹے اور بیٹیاں دونوں عطا کر دیتا ہے اور جسے چاہے تو کچھ بھی عطا نہ کرے۔
ہائے۔۔! پھر بیٹی ہو گئی؟
دکھ کی بات یہ ہی کہ ہم ایک ایسے معاشرے میں رہ رہے ہیں جہاں لڑکی کی پیدائش پر صرف اس لئے افسوس کیا جاتا ہے کہ اس کے نصیب کا خوف ہوتا ہے۔ یہی ہوتی ہے لڑکے اور لڑکی کے نصیب کی تفریق جو اس کی پیدائش کے ساتھ ہی شروع ہو جاتی ہے مگر اس پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی کہ نصیب جڑا کس سے ہوتا ہے، خوف کس وجہ سے ہوتا ہے اور اس کا ذمہ دار کون ہے؟
بیٹا پیدا ہوتا ہے تو مٹھائی بٹتی ہے جبکہ لڑکی کی پیدائش پر ہائے۔۔ ”پھر بیٹی ہو گئی” کا بھالہ سینوں میں جیسے اتار دیا جاتا ہے۔ صرف یہ نہیں بلکہ باقاعدہ عورت کا شوہر اور اس کے گھر والے اس پر ناراض ہو جاتے ہیں کہ بیٹی کیوں، بیٹا کیوں نہیں؟ کل کو کما کے کون دے گا؟ ان ہی باتوں کی وجہ سے زیادہ تر عورتیں ڈپریشن کا شکار ہو جاتی ہیں۔
لڑکیوں کے نصیب کی چابی
ایک بارمیں نے اپنی ایک دوست سے پوچھا کہ اگر آپ مجھے کوئی دعا دینا چاہو تو وہ کیا ہو گی تو اس نے جواب دیا کہ میری امی کہتی ہیں کہ لڑکیوں کو ہمیشہ ان کے اچھے نصیب کی دعا دینی چاہیے تو اس لئے میں بھی تمہیں یہی دعا دوں گی کہ اللہ تمہارے نصیب کھول دے۔
جیسے نصیب کوئی بند دروازہ ہے جسے کھولنا پڑتا ہے اور اس کے لئے ایک عدد اچھے مرد کی ضرورت ہوتی ہے۔ مرد اچھا تو نصیب کا دروزہ کھٹ سے کھل گیا لیکن اگر نہیں اچھا تو بھی زیرعتاب لڑکی ہی رہے گی۔
میں یہ سوچنے پر بھی مجبور ہو گئی کہ نصیب کھلنے کی دعا صرف لڑکیوں کو کیوں دی جاتی ہے، لڑکوں کو کیوں نہیں دی جاتی؟ کیا لڑکوں کے نصیب نہیں ہوتے یا ان کو اپنا نصیب کھلوانے کے لیے دعا کی ضرورت ہوتی ہی نہیں ہے جبکہ وہ خود تو لڑکیوں کے نصیب کی چابی سمجھے جاتے ہیں۔
لڑکا اور لڑکی دونوں اللہ کی دین ہے۔ دونوں ہی اپنا نصیب لکھا لکھایا لے کر آتے ہیں لہٰذا صرف نصیب کی بنیاد پر دونوں میں تفریق نہیں کرنی چاہیے۔
لڑکی کے پیدا ہونے پر شرم اور لڑکا پیدا ہونے پر فخر محسوس نہیں کرنا چاہیے۔ بیٹی رحمت ہوتی ہے زحمت نہیں۔ ایک گھر میں لڑکی کا بھی وہی مقام اور عزت ہونی چاہیے جو اس گھر کے لڑکے کی ہے؛ ایک لڑکی کی پیدائش پر بھی اتنی خوشی منانی چاہیے جتنی ایک لڑکے کی پیدائش پر منائی جاتی ہے۔
دونوں انسان پہلے ہیں اور صنف کی بنیاد پر ایک دوسرے سے الگ بعد میں، تو پھر تفریق کیوں؟ بیٹی اور بیٹا دنوں اللہ کی رحمت ہوتے ہیں اور اسی حوالے سے قابل عزت بھی۔
کیا آپ نے کبھی اس تفریق کو ختم کرنے کے لئے کوئی کوشش، یا پھر ارداہ ہی سہی، کی ہے؟
رعناز ٹیچر اور کپس کالج مردان کی ایگزام کنٹرولر ہیں اور صنفی اور سماجی مسائل پر بلاگنگ بھی کرتی ہیں۔