شمائلہ افریدی
تعلیم مکمل کرنے کے بعد ملازمت کا حصول بھی کسی امتحان سے کم نہیں ہوتا، خاص طور پر قبائلی معاشروں میں لڑکیوں کے لئے۔
خوشی کا لمحہ وہ ہوتا ہے جب اپ کسی نوکری کے انٹرویوکے لئے منتخب ہوجائیں۔
میرے ساتھ بھی کچھ یوں ہوا کہ انٹرویو کی کال پر بے لخت مرزا غالب یاد آگئے یعنی پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ۔
انٹرویو کا شجر اور نوکری کی امید
کچھ روز پہلے کوہ دامن کالج، متنی میں لیکچرر کی پوسٹ کے لئے درخواست بھیجی۔ خوش قسمتی سے انٹرویو کال آگئی۔ پہلا پہلا تجربہ تھا تو پیٹ میں جیسے تتلیاں سی اڑتی محسوس ہوئیں۔
میرا تعلق حسن خیل سے ہے۔ انٹرویو سے پہلے سوچ رہی تھی کہ میرے علاقے میںا لڑکیوں میں تعلیم کا رجحان کم ہے، معلوم نہیں کہ میرے علاوہ بھی کوئی دوسری لڑکی آئی ہوگی یا نہیں۔
میں چاہتی ہوں کہ مقامی لڑکیاں ایسی نوکریوں کے لئے ضرور منتخب ہوں، جو لڑکیوں کی معاشی خودمختاری اور تعلیمی معیار کی بہتری دونوں کے لئے ضروری ہے۔
میں ایسا اس لئے بھی چاہتی تھی کہ جب اپنے ہی قریبی علاقے میں پڑھی لکھی لڑکیوں کے لئے نوکری موجود ہوگی تو انہیں دور دراز علاقوں کی وجہ سے نوکری سے محروم نہیں ہونا پڑے گا۔
خیر اللہ اللہ کرکے میرے انٹرویو کا دن آن پہنچا۔ کافی رش تھا اور بد نظمی بھی مگر تمام کدورت یہ دیکھ کر دور ہوئی کہ لڑکیاں بڑی تعداد میں تھیں اور سونے پہ سہاگہ میرے اپنے علاقے سے بھی تھیں۔
کچھ پشاور ، نوشہرہ، چارسدہ اور کرک سےبھی تھیں۔
میرا ، اسماء اور مریم کا مشن
یہیں میری ملاقات میرے اپنے علاقے سے تعلق رکھنے والی اسماء افریدی سے ہوئی۔ اسماء نے پنجاب یونیورسٹی سے اردو میں ماسٹرز کر رکھا ہے۔ کہنے لگی میں نے اعلی تعلیم کے حصول کیلئے کافی سفر کیا ہے اور اب شادی شدہ ہوں۔
سسرال بہت تعاون کرتا ہے اورمیرے کرئیر کو بڑھانے کے حوالے سے کافی مدد کرتا ہے۔ امید کے دیوں سے جگمگاتی آنکھوں کے ساتھ اسماء چاہتی ہے کہ وہ اس کام کے لئے منتخب ہوجائے جو اس کے لئے اور لڑکیوں کی تعلیم دونوں کے لئے معاون ثابت ہوگا۔
اسماء جیسی دوسری پڑھی لکھی لڑکی مریم ملی۔ وہ جیناکوڑ سے آئی تھی اور پولیٹکل سائینس میں ماسٹرز تک تعلیم یافتہ ہے۔ مریم سخت گیر قبائلی روایتوں کو لڑکیوں کی تعلیم، ان کی نوکری اور اور معاشی خودمختاری کی راہ میں بڑی رکاوٹ تصور کرتی ہے۔
بہتر مستقبل کے لئے کوشاں میرا، اسماء اورمریم، ہم سب کا مشن ایک ہی ہے۔ اپنے لئے باعزت کرئیر کی ترقی اور اسی کو مثال بنا کر قبائلی علاقوں کی لڑکیوں کے لئے پل بننا۔
قابل قبائلی لڑکیاں
وہاں آنے والی لڑکیوں کا انٹرویو کیسا ہوا، یہ تو مجھے معلوم نہیں مگر ان کا حوصلہ، تعلیم کی طرف رجحان ، ملازمت کے حصول کیلئے جہدو جہد اور علاقے کی ترقی کیلئے ان کے خیالات جان کرمانو روح سیر ہوگئی۔
قبائلی علاقوں میں بھی لڑکیاں اور ان کے والدین چاہتے ہیں کہ ان کی بیٹیاں اعلی تعلیم حاصل کریں، علاقے کی ترقی کیلئے کام کریں لیکن بدقسمتی یہی ہے کہ انہیں موقع میسر نہیں۔
مجھے یقین ہے کہ ہمارے قبائلی علاقوں کی ہر لڑکی قابل ہوتی ہے۔ اگر قابلیت اور میرٹ کی بنیاد پر ان کو تعلیم اور ملازمت کے مواقع دئیے جائیں تو علاقے سے پسماندگی ختم نہیں تو بہت حد تک کم ضرور ہوسکتی ہے۔
کیا آپ یہ بتانے میں میری مدد کریں گے کہ ایسے کون سے اقدامات ہیں جن پر عمل کرکے قبائلی علاقوں کی لڑکیوں کو بھی ملازمت کے یکسآں مواقع مل سکیں؟