کلائمیٹ چینج سے ڈینگی بخار کا دورانیہ سردیوں تک آن پہنچا
رانی عندلیب
گلوبل وارمنگ نومبر کے مہینے میں بھی ڈینگی مچھر کا ختم نا ہونا ڈینگی بخار کی سب سے اہم وجہ ہے۔ پھر اس کے ساتھ ساتھ لوگ احتیاط بھی نہیں کرتے جس کی وجہ سے سردی کا موسم شروع ہونے کے باوجود ڈینگی وائرس سے مریضوں کی تعداد میں کمی نا آ سکی۔
خیبر پختونخوا کے سب سے بڑے ہسپتال لیڈی ریڈنگ کے اسسٹنٹ پروفیسر اور ڈینگی وارڈ کے انچارج ڈاکٹر ضیا اللہ کے مطابق کلائمیٹ چینج یا آب و ہوا کی تبدیلی جہاں اور چیزوں پر اثرانداز ہوئی ہے وہاں انسانی صحت پر بھی اس کے منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں، ان میں سے ایک ڈینگی وائرس بھی ہے جو تقریباً ستمبر تک لوگوں کی صحت پر اثرانداز ہوا کرتا تھا لیکن اس سال نومبر تک اس بیماری میں کوئی کمی نہیں آئی۔
انہوں نے کہا کہ لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے ڈینگی وارڈ میں روزانہ 5 سے 6 مریضوں کو داخل کیا جاتا ہے جبکہ او پی ڈی میں 50 مریضوں کا ڈینگی ٹیسٹ کیا جاتا ہے جن میں سے 10 یا 15 میں ڈینگی وائرس کی تصدیق ہوتی ہے اور ان میں سے بعض کو حالت خراب ہونے کی وجہ سے وارڈ میں داخل کر دیا جاتا ہے۔
11 نومبر 2022 کو پورے خیبر پختونخوا میں 24 گھنٹوں کے دوران 445 مریضوں میں ڈینگی بخار کی تشخیص ہوئی۔ اس حوالے سے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ تعداد بہت زیادہ ہے لیکن لوگ زیادہ تر اپنا ٹیسٹ نہیں کرواتے اور جب تک طبیعت زیادہ خراب نہ ہو ہسپتال یا ماہر ڈاکٹر سے رجوع نہیں کرتے۔
دوسری جانب پشاور یونیورسٹی کے ماحولیاتی سائنس ڈپارٹمنٹ کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر آصف خٹک کا کہنا تھا کہ آب و ہوا کی تبدیلی کی وجہ سے مختلف قسم کی بیماریاں دنیا کے دوسرے ممالک سمیت پاکستان میں بھی عام ہو چکی ہیں، پاکستان کے دوسرے صوبوں سمیت خیبر پختونخوا میں بھی آب و ہوا میں تبدیلی آ چکی ہے اور اسی وجہ سے ڈینگی وائرس کے کیسز خیبر پختونخوا میں بھی بہت زیادہ ہیں۔
آصف خٹک کے مطابق پوری دنیا میں سائنسدانوں نے اس مسئلے پر تحقیق کی ہے اور وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ جب درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے تو ڈینگی کے مچھروں کی افزائش زیادہ ہو جاتی ہیں جس کی وجہ سے ڈینگی وائرس پھیلنے کا خطرہ بھی زیادہ ہو جاتا ہے، آب و ہوا میں تبدیلی کے بہت زیادہ اثرات ہیں جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ مچھر کی افزائش نسل بہت زیادہ ہوتی ہے اور تب ڈینگی وائرس پھیلنے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔
بقول ان کے آب و ہوا کی تبدیلی کے اثرات میں ایک یہ بھی شامل ہے کہ آج سے دس پندرہ سال پہلے گرمی اور سردی کا اپنا دورانیہ ہوا کرتا تھا لیکن اب ایسا نہیں ہے، آج کل گرمی کا دورانیہ زیادہ ہو گیا ہے جبکہ سردی کا موسم کم ہو رہا ہے اس لئے آج کل درجہ حرارت میں بھی اتار چڑھاؤ آ گیا ہے۔
ڈاکٹر آصف نے بتایا کہ اس کے علاوہ آب و ہوا میں تبدیلی کا سب سے بڑا اثر یہ بھی ہے کہ بارش کا موسم نہ ہونے کے باوجود بارشیں نہ صرف ہوتی ہیں بلکہ ضرورت سے زیادہ برستی ہیں جس کی وجہ سے جگہ جگہ پانی کھڑا ہو جاتا ہے جبکہ نکاسی کا کوئی انتظام نہیں ہوتا، کھڑے پانی میں مچھر کی افزائش نسل ہوتی ہے جس سے مختلف قسم کی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔
آصف خٹک کے مطابق جب بھی بارشوں کی ضرورت ہوتی ہے تو ضرورت کے مطابق یا تو ہوتی نہیں ہیں یا بالکل بھی نہیں ہوتیں جس کی وجہ سے ابھی تک پاکستان یا خیبر پختونخوا میں ان بیماریوں پر قابو نہیں پایا جا سکا۔
اسسٹنٹ پروفیسر کے مطابق ڈینگی جیسی خطرناک بیماری سے بچنے کے لیے خود اپنے آپ کو تیار کرنا ہو گا اس کے علاوہ مختلف قسم کی بیماریوں سے بچنے کی تدابیر اپنانی چاہئیں، دوسرا یہ کہ مچھروں کو ختم کرنے کے لیے اپنے گھروں محلوں میں سپرے کرنا چاہیے تب ہی ڈینگی بیماری پر قابو پایا جا سکتا ہے، ”مچھر سے بچاؤ کا بہترین طریقہ یہ بھی ہے کہ مچھردانی کا استعمال کیا جائے، اس کا ایک فائدہ تو یہ ہے کہ مچھر انسان کو نہیں کاٹ سکتا اس طرح بڑے پیمانے پر اس بیماری کو قابو کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔
پشاور شہر سے تعلق رکھنے والے رحیم خان کو پچھلے کچھ دنوں سے بخار کی شکایت تھی، جب ہسپتال آئے تو ڈاکٹر نے ڈینگی کا ٹسٹ کیا جس میں ڈینگی بخار مثت آیا، تاخیر سے ہسپتال آنے کی وجہ سے ان کے پلیٹ لیس کافی کم ہیں تو اس لیے وارڈ میں داخل ہیں اور اس وقت ان کی حالت بہتر ہے۔
لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں پروفیسر میڈیسن کے طور پر فرائض سرانجام دینے والے ڈاکٹر ضیاء الدین نے ڈینگی وائرس یا بیماری کے حوالے سے بتایا کہ ڈینگی بخار ڈینگی مچھر کے کاٹنے سے ہوتا ہے، آج تک ڈینگی کی چار اقسام دریافت ہو چکی ہیں جن کو ڈینگی ون، ڈینگی ٹو، ڈینگی تھری اور ڈینگی فور کہا جاتا ہے، ”ڈینگی بخار میں سب سے پہلے مریض کو تیز بخار ہو جاتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ ہڈیاں درد کرنا شروع کر دیتی ہیں، مریض کو قے کی شکایت بھی ہو سکتی ہے اور مرض کی شدت بڑھ جانے سے ناک سے، مسوڑھوں سے یا جسم کے باقی حصوں سے خون بھی بہہ سکتا ہے، ناک سے یا جسم کے کسی بھی حصے سے خون آنے کی صورت میں مریض کو ہسپتال میں داخل کروا دیا جاتا ہے اور اسے سفید اور سرخ خون کے ڈریپ لگوائے جاتے ہیں۔
پروفیسر میڈیسن کے مطابق عام طور پر ڈینگی بخار کا علاج پیراسٹامول یا پیناڈول ٹیبلٹ استعمال کر سکتے ہیں تاکہ بخار کم ہو سکے؛ ڈینگی بخار میں مریض کو زیادہ سے زیادہ آرام کروایا جائے، اس کے علاوہ مریض کو متوازن غذا، خاص طور پر تازہ پھل اور سبزیاں، اور پانی کی ضرورت بہت زیادہ ہوتی ہے۔
ڈاکٹر ضیاء الدین کے مطابق خیبر پختونخوا میں ڈینگی وائرس سے متاثرہ 14 فیصد لوگ رپورٹ ہو چکے ہیں جن میں مردوں کی شرح خواتین سے زیادہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس دفعہ زیادہ بارشوں کی وجہ سے اور موسمی تغیرات کی وجہ سے ابھی تک ڈینگی بخار اور اس سے متاثرہ مریض رپورٹ ہو رہے ہیں، مریضوں میں ڈینگی کی تشخیص اسی طرح ہو رہی ہے جیسے گرمی کے موسم میں ہوتا ہے۔