ارشد شریف قتل: کچھ غلطیاں جو کوئی بچہ بھی پکڑ لے
حمیرا علیم
تم شب کی سیاہی میں مجھے قتل کرو گے
میں صبح کے اخبار کی سرخی بنوں گا
یہ الفاظ تھے شہید ارشد شریف کے۔ میں ارشد شریف کو ذاتی طور پر نہیں جانتی نہ ہی مجھے کرنٹ افئیرز کے پروگرامز میں دلچسپی ہے لیکن کبھی کبھار کوئی پروگرام دیکھ بھی لیتی ہوں۔
بہت کم صحافی ہیں جن کی شہرت اچھی ہے، جنہیں لفافے والے صحافی کی بجائے ایماندار سمجھا جاتا ہے۔ اس کی وجہ ان کا کام ہوتا ہے۔ ارشد شریف بھی انہی میں سے ایک تھے۔ دو شہیدوں کے وارث؛ فوجی آفیسر کے بیٹے، اک شہید کے بھائی اور وطن سے مخلص صحافی جن کو اپنی جاب کرنے پر نہ صرف جاب سے نکال دیا گیا بلکہ جان لینے کی دھمکیاں بھی دی گئیں مگر وہ اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔
دھمکیوں کی وجہ سے پاکستان چھوڑا اور دبئی شفٹ ہو گئے جہاں دو دن پہلے دبئی کی حکومت نے پیغام پہنچایا کہ 48 گھنٹے کے اندر اندر پاکستان واپس چلے جائیں یا دبئی چھوڑ دیں اور کہیں اور چلے جائیں، انہوں نے کینیا جانے کا سوچا کیوں کہ وہاں ویزے کی قدغن نہیں تھی۔ لیکن واپسی نصیب نہیں ہوئی۔ وہ نہیں جانتے تھے کہ ان کی جان کے درپے لوگ انہیں گور تک پہنچا کر ہی دم لیں گے۔
ابھی تک جو خبریں موصول ہو رہی ہیں ان کے مطابق وہ ایک گاڑی میں جا رہے تھے۔ پولیس کی چیک پوسٹ پر شناخت کے لیے روکا گیا۔ پولیس ایک بچے کے اغواء کنندگان کو ڈھونڈ رہی تھی۔ انہوں نے ارشد کو اغواء کار سمجھا اور گولی مار دی۔ یہ کہانی بالکل ایسے ہی ہے جیسے ہماری پاکستانی پولیس کسی کو مارنا چاہتی ہے تو جعلی پولیس مقابلہ کر کے مار دیتی ہے یا نامعلوم دہشت گردوں یا ٹارگٹ کلرز کے کھاتے میں ڈال کر کیس کی فائل بند کر دی جاتی ہے۔ اس بہانے میں بھی کچھ غلطیاں ہیں جو کہ کوئی بچہ بھی پکڑ لے۔
کینیا افریقی ملک ہے، کسی بھی دوسرے ملک کا باشندہ آسانی سے پہچانا جا سکتا ہے۔ ارشد نے یقیناً اپنی آئی ڈی بھی دکھائی ہو گی۔ فرض کیجئے کہ ارشد کی شکل اغواء کار سے ملتی تھی تو کیا کینیا میں بغیر مقدمہ چلائے ملزم کو صفائی کا موقع دیے بغیر اغواء کار کو سرعام گولی مار دی جاتی ہے؟
نجانے کیوں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کے دشمنوں نے کینیا جیسے ملک کو ان کے خاتمے کے لیے آسان جانا اور اپنا ٹاسک بڑی آسانی سے پورا کر لیا۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ کینیا بھی پاکستان کی طرح ”لاء لیس” ملک ہے جہاں کی پولیس اور قانون ہمارے ملک کی پولیس اور قانون کی طرح پیسے کو باپ مانتے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ ان کے دشمنوں نے پولیس کو بھاری رقم دے کر آمادہ کر لیا ہو کہ وہ انہیں گولی مار لیں گے پولیس بس یہ لنگڑا بہانہ بنا دے کہ غلطی سے انہیں گولی مار دی گئی۔
ارشد شریف کے پیچھے کون کینیا جا کر تحقیقات کرے گا، سچ کھوجے گا؟ اب تک جو معلومات ان کے دوستوں اور کینیا کے صحافیوں کے ذریعے سامنے آئی ہیں سب کو یقین ہے کہ کینیا کی پولیس کی فراہم کردہ معلومات مضحکہ خیز اور تضادات سے بھری ہوئی ہیں۔ ارشد شریف کے سر پر جس رخ سے گولی ماری گئی ہے اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ یہ ٹارگٹ کلنگ ہے۔
حقیقت جلد سامنے آ جائے گی مگر اس کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا کیونکہ جانے والا واپس نہیں آئے گا۔ ایک سچا اور بہادر صحافی، ایک ماں کا بیٹا، بیوی کا شوہر، بچوں کا باپ اور یتیم بھتیجے بھتیجیوں کا واحد سہارا چلا گیا۔ جانے والا جیسا بھی انسان تھا اچھا یا برا میرا ماننا ہے کہ مقتول جنت میں ضرور جائے گا کہ اللہ تعالی نے کسی بھی جرم کی سزا میں قتل کی اجازت نہیں دی ہے۔
میرے نزدیک کسی شخص کی اچھائی کی دلیل اس کی تعلیم، اعلی حیثیت یا مال و دولت نہیں بلکہ خلق خدا کی اس کے بارے میں رائے ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حدیث کی رو سے جب اللہ تعالٰی کسی سے محبت کرتے ہیں تو جبریل علیہ السلام کو بلا کر انہیں بتاتے ہیں کہ تم بھی اس سے محبت کرو اور ساری مخلوق کو بھی کہہ دو کہ اس سے محبت کرے اور جس سے نفرت کرتے ہیں اس کے بارے میں جبریل علیہ السلام کو کہہ دیتے ہیں کہ ساری مخلوق کو بتا دیں کہ وہ بھی اس سے نفرت کریں۔
اور صرف یہی معیار ہے کہ کون اچھا انسان ہے اور کون برا۔ ثبوت کے طور پر جنید جمشید کو دیکھ لیجئے اور اپنے حکمرانوں کو بھی۔ ایک نعت خواں اور مبلغ لوگوں میں اتنا مقبول ہو جاتا ہے کہ اس کے جنازے میں چار لاکھ سے زائد لوگ شرکت کرتے ہیں اور کچھ ایسے بااقتدار و بااختیار لوگ بھی ہیں جو حرم میں عمرہ کی ادائیگی کے دوران بھی گالیاں کھاتے ہیں۔اس ڈر سے گھروں سے باہر نہیں نکل سکتے کہ لوگ ان پہ آوازے کسیں گے۔
ارشد شریف کی موت کی خبر ایک سوشل میڈیا پوسٹ سے ملی۔ اس پوسٹ پر اور دیگر پوسٹس پر کمنٹس پڑھے تو جانا کہ ارشد عوام میں کتنے مقبول تھے۔ لوگوں نے لکھا ہوا تھا کہ انہیں ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے ان کا کوئی اپنا بچھڑ گیا ہو۔ ان کی مغفرت کے لیے ڈھیروں دعائیں تھیں۔
کچھ ایسے ہی محسوسات میرے بھی تھے۔ ایک انجان شخص جسے میں نے صرف چند بار کسی پروگرام میں دیکھا تھا مگر اس کی موت کی خبر نے انتہائی افسردہ کر دیا۔ نماز پڑھتے ہوئے بارہا خیال آتا رہا اور ان کی مغفرت کی دعا کرتی رہی۔ کیا یہ ثبوت، دل کی گواہی ان کے اچھا ہونے کی دلیل کے طور پر کافی نہیں ہے؟
خاندان میں دوست احباب میں جس سے بھی ان کے بارے میں بات کی اچھی بات ہی سننے کو ملی۔ اللہ تعالٰی ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کے لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے اور ان کے قاتلوں کو کیفرکردار تک پہنچائے۔ شاید انہی جیسے لوگوں کو دیکھ کر کسی نے لکھا تھا:
لہو میں بھیگے تمام موسم گواہی دیں گے کہ تم کھڑے تھے
وفا کے رستے کا ہر مسافر گواہی دے گا کہ تم کھڑے تھے
سحر کا سورج گواہی دے گا کہ جب اندھیرے کی کوکھ میں سے
نکلنے والے یہ سوچتے تھے کہ کوئی جگنو نہیں بچا ہے
تمہاری آنکھوں کے طاقچوں میں جلے چراغوں کی روشنی نے
نئی منازل ہمیں دکھائیں تمہارے چہرے کی بڑھتی جھریوں نے دلوں کو نمود بخشی
تمہارے بھائی تمہارے بیٹے تمہاری بہنیں تمہاری مائیں
تمہاری تمہاری مٹی کا ذرہ ذرہ گواہی دے گا کہ تم کھڑے تھے
ہماری دھرتی کے جسم سے جب ہوس کے مارے
سیاہ جونکوں کی طرح چمٹے تو تم کھڑے تھے
لہو میں بھیگے تمام موسم گواہی دیں گے کہ تم کھڑے تھے