بیوی یا بہو بننے کی نہیں، اچھا انسان بننے کی تربیت
سندس بہروز
ایک ٹی وی ڈرامے کے ڈائیلاگ میرے دل اور دماغ پر ایسے نقش ہوئے کہ سوچا کیوں نہ اس پر بلاگ لکھوں۔
وہ دراصل شوہر اور بیوی کے درمیان ایک مکالمہ تھا جو کچھ یوں تھا: ”ہم اپنے بیٹے کی تربیت بیٹا سمجھ کر نہیں بلکہ انسان کی حیثیت سے کریں گے۔”
یہ خوبصورت اور متوازن سوچ ڈراموں تک محدود نہیں ہونی چاہیے۔ عورت یا مرد ہونا دراصل طے شدہ معاشرتی شناختیں ہیں اور ان سے منسوب برتاؤ بھی۔
دونوں پہلے انسان ہیں اور سب انسان برابر، تو پھر حقوق بھی برابری کی بنیاد پر تسلیم کرنے چاہیئں، برتاؤ اور تربیت میں یکسانیت ہو اور مواقع بھی۔
مگر عورت کی تربیت کچھ عجیب ہی غیرقدرتی خطوط پر کی جاتی ہے۔ پدرشاہی معاشروں میں بلوغت سے پہلے ہی دونوں کو الگ کر دیا جاتا ہے۔ فاصلوں کو بڑھا دیا جاتا ہے۔
عورت کو کہا جاتا ہے کہ بس سات پردوں میں ایسے چھپی رہو کہ کسی کو آواز بھی سنائی نہ دے۔ ایسے میں اکثر مردوں کو کہتے سنا کہ عورت تو معمہ ہوتی ہے۔ جب ایک دوسرے کو سمجھنے اور ایک دوسرے سے سیکھنے نہیں دیا جائے گا تو معمے ہی سر اٹھائیں گے۔
سمجھنے والی بات یہ ہے کہ عورت کوئی معمہ وعمہ نہیں، وہ ایک انسان ہے جیسے کہ مرد۔
یہ تمہارا نہیں بلکہ باپ کا گھر ہے
یہاں عورت کی تربیت انسان بننے کی نہیں بلکہ بیوی اور بہو بننے کے خطوط پر ہوتی ہے۔ اسے گھر کو اپنا گھر بھی نہیں سمجھنے دیا جاتا۔ سلیقے اور سگھڑاپے کی پٹیاں پڑھائی جاتی ہیں، اپنی ذات کی نفی اور مرد سے نسبت کو فخر سے تشبیہہ دی جاتی ہے، غلط بات پر احتجاج کے بجائے خاموشی کا تالہ تھمایا جاتا ہے کہ زبان پر لگا لو جیسے اس کی اپنی کوئی ذات ہی نہیں۔ اونچی آواز میں، کھلکھلا کر ہنسنے کا حق چھین کر منہ میں گھنگنیاں ڈالنا سکھایا جاتا ہے۔
مجھے سمجھ نہیں آتا کیا عورت انسان نہیں، کیا اس کے جذبات نہیں کہ وہ کھل کر ہنس بول بھی نہیں سکتی حتی کہ رو بھی نہیں سکتی اونچی آواز میں؟
اپنا حق منوانے کو حکم عدولی اور حق کی نفی کو تابعداری کا نام دے کر سسرال میں جانے کی تربیت کا ڈنکا بجایا جاتا ہے۔
یہ تمہارا نہیں بلکہ شوہر کا گھر ہے
والدین کے گھر میں صبر کی مشقیں کرتے کرتے خواہشیں تلف کرنے کی تربیت لئے سسرال پہنچتی ہے۔ اب یہ صبرآزما مشقوں کی تھکان ہی ہوتی ہے جو اسے ماؤف کر دیتی ہے۔ مگر صبر کا پل صراط ختم نہیں ہوتا۔
سسرال میں بھی الٹی گنگا بہہ رہی ہوتی ہے کیونکہ ان کے مطابق تو عورتوں کی تمام خواہشیں والدین کے گھر میں ہی پوری ہو جانی چاہئیں۔ اسے چپ سادھنے میں ہی عافیت لگتی ہے۔
کیونکہ اسے زیادتی برداشت کرنے کی عادت جو ہو گئی ہے۔ پھر والدین شادی کے وقت یہ بھی تو کہتے ہیں کہ اب وہی تمہارا ”اصل گھر” ہے، واپس مڑ کر مت آنا۔
اس گھر کو محفوظ چھت سمجھتے ہوئے اسے تسلی ہوتی ہے کہ اب وہ اپنے ”اصل گھر” میں تو ہے مگر شوہر کے گھر میں جگہ بناتے بناتے عمر بیت جاتی ہے، پھر بھی وہ گھر اس کا نہیں ہو پاتا۔
وہ جو بچپن سے دوسرے گھر کی تربیت ہو رہی ہوتی ہے وہ پچپن میں بھی دوسرا ہی گھر ہوتا ہے۔
مردوں کی پگڑی اور عورت کا کاندھا
شروع دن سے باپ دادا کی عزت کو عورت کے ساتھ جوڑ دیا جاتا ہے اس بات کی پرواہ کیے بغیر کہ ہر انسان اپنی عزت کا خود ذمہ دار اور پاس دار ہے۔
وہ عورت جس پر پہلے بھی بہت ساری پابندیاں تھیں اب اس کے کندھے اس بوجھ تلے دبائے جاتے ہیں۔ وہ آزادی کی سانس لینا بھول جاتی ہے یہ سوچے بغیر کہ اگر میں بیٹی ہوں اور مجھے باپ کی عزت کا مان رکھنا ہے تو اس بیٹے کا کیا جو وہ سب کرتا ہے جو اس کے دل میں آتا ہے، کیا اس کا فرض نہیں اپنے باپ کی عزت کا خیال رکھنا؟ اگر باپ کی پگڑی میری وجہ سے بلند ہے تو پھر گھر میں مجھے وہ مقام حاصل کیوں نہیں جو بلند رکھنے والے کا ہوتا ہے۔
باشعور عورت باشعور معاشرہ
بیٹے کو اچھے سکول میں بھیجا جاتا ہے جبکہ بیٹی کو عام سکول میں، بیٹے کی غذا بیٹی سے مختلف ہوتی ہے، اس کی پاکٹ منی بیٹی سے زیادہ ہوتی ہے، وہ جسے چاہے دوست بنا سکتا ہے جب کہ بیٹی کو گھر میں قید رکھا جاتا ہے۔
بیٹے کے حقوق یاد رہتے ہیں اور اگر کوئی بھول بھی جائیں تو بیٹا یاد کروانا نہیں بھولتا مگر بیٹی کو صابر کہہ کر اس کے حقوق ہڑپ لیے جاتے ہیں۔ آخر کیوں؟ اور آخر کب تک؟ آخر کب تک معاشرے کی آدھی آبادی کو نظرانداز کیا جائے گا؟
اپنی خودغرضی میں ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ اگر ہم بیٹیوں کو باشعور بنانے میں مدد دیں گے تو اس سے ایک گھر نہیں بلکہ پورا معاشرہ باشعور ہو گا۔
معاشرے کو بہتر بنانا ہے تو پوری آبادی کو ساتھ مل کر کام کرنا ہو گا سب کو یکساں مواقع فراہم کرنے ہوں گے۔
آپ اپنی باصلاحیت بیٹیوں کو مزید باشعور بنانے میں کیا کردار ادا کر رہے ہیں؟
سندس بہروز ٹیچنگ کے شعبے سے وابستہ ہیں اور مختلف سماجی اور صنفی موضوعات پر بلاگ اور شارٹ سٹوریز لکھتی ہیں۔