اچھے شوہر کی تلاش۔۔۔!
ارم رحمان
اب تک ہم چاند سی بہو، کم عمر حسینہ نازنینہ کی تلاش میں لگے رہے لیکن کبھی ہم نے نہیں سوچا کہ خواتین کیسا شریک سفر چاہتی ہیں۔
عورت کی فطرت میں وفاداری ہے اور مشرقی خواتین خاص طور پر برصغیر پاک و ہند میں تو شوہر کو مجازی خدا کہا جاتا ہے اور نعوذباللہ اس مجازی خدا کی بدمزاجی کے ڈر سے اصلی خدا کی بھی حکم عدولی کر دی جاتی ہے:
نفل روزے مت رکھو شوہر سے پوچھو پہلے
نفل نماز نہ پڑھو شوہر سے پوچھو پہلے
رات کو بن ٹھن کر تیار رہو کہ شوہر کی نظر پڑے تو اس کی آنکھیں ٹھنڈی ہو جائیں
اس کو ”سکون” ملے
باہر نکلے، کسی حسین عورت پر نظر پڑے اور وہ پلٹ کر الٹے پیر گھر آئے کہ بیوی سے تسکین حاصل کر سکے تو بیوی کبھی شرعی عذر کے علاوہ انکار نہ کرے۔
اور بسااوقات تو شوہر کی ہر جائز ناجائز بات آنکھ اور منہ بند کر کے اس لیے مان لی جاتی ہے کہ شوہر کو خوش رکھنا ہی عورت کی زندگی کا سب سے اہم مقصد ہے چاہے شوہر نامدار رج کے بے دین ہو۔
طلاق ہو گئی تو معاشرہ ذلیل و رسوا کرے گا، بچوں کا کیا بنے گا، خرچہ کون اٹھائے گا بلکہ تین طلاق دینے کے باوجود مرد اگر چاہے تو ایک دیگ پکا کر اسی عورت سے نکاح پڑھوا دیا جاتا ہے چاہے فتویٰ کچھ بھی ہو۔ حلال حرام واللہ اعلم۔۔ یہ ہماری بحث نہیں۔
یہ تو ہے ایک رخ، اب دوسرے رخ پر نظر ڈالتے ہیں۔
ہر لڑکی چھوٹی سی عمر میں ہی کسی شہزادے کے انتظار میں دن گزارنے لگتی ہے۔ ہمارے معاشرے کی 99 فیصد آبادی کا ایک ہی شدید مسئلہ ہے اور وہ ہے "شادی” سب کچھ اس پر ہی منحصر ہے خاص طور پر عورت کی اچھی قسمت کی دعا کا مطلب صرف "اچھا شوہر” ملنا ہی سمجھا جاتا ہے۔
لڑکی خواہ کتنی بھی قابل ہو پڑھی لکھی ہو، اچھی ہو لیکن سب کی سوئی شادی پہ آ کر اٹکتی ہے؛ صبح و شام سارے خاندان اہل محلہ اسی غم میں گھلتے رہتے ہیں کہ شادی کیوں نہیں ہو رہی (اور شادی اچھی جگہ ہو تو حسد کی آگ میں جلتے ہیں)۔
آج کے دور میں لڑکی اور اس کے والدین بہت سیانے ہو گئے ہیں؛ لڑکے پہلے اپنی بولی لگواتے تھے، اب لڑکی والے بولی لگاتے ہیں اور بالکل اسی طرح جانچ پڑتال ہوتی ہے جیسے "قربانی کے بکرے” کی!
لڑکی والے پہلے اپنی بچیوں کو بھیڑ بکری کی طرح بیاہتے تھے اب لڑکی والے بکرے کی طرح اپنی بچی کا شوہر ڈھونڈتے ہیں:
اکثریت لڑکیوں کی ڈیمانڈ
لڑکا فواد خان کی طرح ہینڈسم ہو
عامر خان کی طرح شوخ و شنگ
سلمان خان کی طرح خوبصورت جسم
شاہ رخ خان کی طرح شدید رومانوی طبعیت کا مالک
اور
اللہ بھلا کرے بل گیٹس کا، کسی کو دوسرا کلمہ آئے یا نہ آئے بل گیٹس کا نام سب کو پتہ ہے، اس جیسا امیر شوہر چاہیے۔
پھر لڑکے کی تعلیم اتنی زیادہ ہو کہ امریکہ کا صدر، کینیڈا کا وزیر اعظم اور برطانیہ کا بادشاہ چارلس اسے خود اپنے خرچے پر بلا کر اعزازی ڈگری سے نوازے
گھر اپنا ذاتی کم سے کم ایک کنال کا، اس سے کم میں لاڈو رانی کا دم گھٹتا ہے
سر پر باپ کا سایہ ہو یا نہ ہو گھنے بالوں کا سایہ ضرور ہو کہ گرمی اور حبس میں پنکھا جھلنے کی نوبت نہ آئے، شوہر بال ہلائے اور بیگم کو ہوا آئے۔
ساس نند کا کوئی وجود نہ ہو یا ہو بھی تو کم از کم سب نندیں اور دیور اپنے اپنے گھروں کے ہوں اور ان کی لاڈو رانی کے نخرے اٹھائیں، اپنے گھر بلائیں مگر ان کے گھر نہ آئیں۔
گھر میں رہنے والے مالکان کی تعداد کم اور نوکروں کی فوج ڈبل
گاڑی مرسیڈیز، پجیرو، لینڈ کروزر تو ہونی ہی چاہیے۔
باقی اللہ کی شان، دے تو مزید بڑی گاڑی لے لے ورنہ ان پر قناعت ممکن ہے۔
شادی کا حال
سب سے پہلے بہترین شادی ہال
میک اپ اور لہنگا شاندار برانڈڈ؛ ایچ ایس وائی یا دیپک پروانی سے کم بات نہیں بنے گی
جیولری اس قدر خوبصورت اور مہنگی؛ جیسے کسی بنک میں ڈاکہ ڈالا اور سب لوٹ نکالا۔
شادی کے دن فوٹو شوٹ ایسا کہ ہر بڑا ڈائریکٹر، پروڈیوسر کف افسوس ملے کہ اتنی حسین خاتون ہیروئن بننے سے کیوںکر بچ گئی۔
شادی ہال کی سجاوٹ دیکھ کر کرن جوہر، سنجے لیلا بھنسالی اور پاکستان کے ندیم بیگ اور نامور فلمساز شرمندہ ہو جائیں کہ سیٹ ایسے بھی ہوتے ہیں!
پھر تمام رسمیں بہت عالی شان کہ دودھ پلائی، باگ پھڑائی، جوتا چرائی میں کروڑ نہیں تو لاکھوں روپے تو ملیں۔
اور پھر سب سے اہم سنت "حق مہر”۔۔ وہ کیسے بھول سکتے ہیں۔
ایک عدد کوٹھی تو نام کرنا بنتا ہے نا!
ورنہ ایک کروڑ سے کم کیا حق مہر دینا
کچھ معصوم، سادہ لوح افراد پچاس لاکھ کی حقیر رقم پر بھی مان جاتے ہیں۔ مجھے بتائیے کیا یہ ہے اچھا شوہر؟
حلال کمائی سے تو یہ سب ممکن نہیں؛ جھوٹ، گھپلہ دھوکہ سب قبول ہے عزت دار، شریف، عام قد و کاٹھ کا مرد قبول نہیں۔ اگر شوہر تو تڑاخ نہ کرے گالیاں نہ دے وہ منظور نہیں لیکن ہیرو چاہیے چاہے شرابی، جواری اور زانی اور بیوی سے جھوٹے فلمی ڈائیلاگ ضرور بولے۔
ہم کس طرف جا رہے ہیں؟ ٹک ٹاک دیکھنے اور بنانے والے کیا جانیں عزت سے رزق کیسے کمایا جاتا ہے؟ حق حلال کمانے والا مرد پانچ مرلے میں بھی رہے تو بہت ہے، بیوی کی عزت کرے اور جائز ضروریات زندگی پوری کرے تو اور کیا چاہیے؟
شکل صورت میں کوئی خاص نقص نہ ہو، باکردار با اخلاق ہو تو کیا مضائقہ ہے! لڑکی کو ضرور دکھانا چاہیے، اور اگر لڑکی بہت سمجھدار ہو، فون پر بات کرنے کا موقع بھی تو حرج نہیں کیونکہ بعض بچیاں کافی ذہین ہوتی ہیں، وہ باتوں سے اندازہ کر لیتی ہیں کہ ہم آہنگی ممکن ہے یا نہیں اس طرح کچھ طبعیت اور مزاج سمجھنے کا موقع مل جاتا ہے۔
پوری طرح تو بندے کے ساتھ رہ کر ہی پتہ لگتا ہے لیکن تسلی ہو جائے تو ٹھیک ہے۔ سگریٹ نوشی کرنے کا یا مذاق کا معیار کیا ہے یا گفتگو سے تعلیم و تربیت کا پتہ تو لگ ہی جاتا ہے۔ اگر نشہ نہیں کرتا، کوئی غلط صحبت نہیں تو رنگ اور شکل پر زیادہ زور نہ دیں، مستقل مزاج اور ذمہ دار ہے تو ظاہری باتوں کی پرواہ نہ کریں کیونکہ محنتی مرد اپنا مقام بنا لیتا ہے۔
المختصر بچیوں کو سکھائیں کہ سادگی اور قناعت انسان کو کبھی کسی کے سامنے رسوا نہیں ہونے دیتے، دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے اور دوسروں کی خیرات کھانے سے لاکھ درجے بہتر ہے کہ عزت کی روکھی سوکھی روٹی ملتی رہے، سفید پوش بن کر گزارا کر لیا جائے۔
اور آخر میں عرض کر دوں کہ طمع، لالچ اور ہوس۔۔ یہ کبھی ختم نہیں ہوتے، ان کے گھڑے خالی ہی رہتے ہیں۔
ہر چمکتی چیز سونا نہیں ہوتی، اس دنیا فانی میں کوئی مخلوق بے عیب نہیں، یہاں تو غیرمسلم بھی اتفاق کر سکتے ہیں کیونکہ قناعت اور سادگی تو ہر انسان کے لیے مفید ہے، جو دنیا میں ہے سب نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے، یہ بھی سب پر لاگو ہے۔
سب فانی ہے صرف اللہ کی ذات باقی رہے گی، توکل کریں، اللہ کی رضا پر راضی رہیں اور یاد رکھیں دنیا کی چمک دمک کے پیچھے بھاگنے والے کی قبر کبھی روشن نہیں ہوتی۔ اللہ ہم سب کو ہدایت دے۔ آمین!