جرائمکالم

نفرت جرم سے کرنا چاہیے، مجرم سے نہیں!

عصمت جبیں

قانون کی خلاف ورزی اور جرم کا ارتکاب کسی سے بھی ہو سکتے ہیں۔ لیکن کوئی بھی جرم عمر بھر کا پچھتاوا اس وقت بھی بن جاتا ہے جب جرم کا مرتکب شہری اپنی قانونی سزا تو پوری کر لے لیکن معاشرہ اسے تاحیات سزا دیتا رہے۔

پاکستان میں بھی ایسے کئی سزا یافتہ شہری ہیں، جو قانونی سزا مکمل ہونے کے بعد بری ہوئے مگر معاشرے کے رویوں کی صورت میں آج بھی سزا کاٹ رہے ہیں۔ ایسے شہریوں کا تعلق اگر کسی اقلیتی برادری سے ہو تو پھر اکثریتی سماج کے تنقیدی رویوں سے رہائی بڑی ہی مشکل سے ملتی ہے۔

پاکستان کے شہر راولپنڈی کی اڈیالہ جیل سے رہا ہونے والی ایک سزا یافتہ مسیحی خاتون شہری سعدیہ بی بی (فرضی نام ) نے بتایا کہ جیل کی زندگی کسی عذاب سے کم نہیں ہوتی تاہم اب ویمن ایڈ ٹرسٹ جیسی چند غیرحکومتی تنظیموں کی وجہ سے جیلوں میں قید خواتین کو خاصی سہولیات مل چکی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ اب صورت حال کافی بہتر ہو گئی ہے، "پہلے تو وہاں ساٹھ، ستر خواتین ایک ہی کمرے میں ایسے بند کر دی جاتی تھیں جیسے ڈربے میں مرغیاں ہوتی ہیں، تب ان تمام عورتوں کے لیے صرف ایک ہی بیت الخلا ہوتا تھا جس میں پانی بھی کم ہی آتا تھا۔ پھر حیض کے دنوں میں ان خواتین کے پاس استعمال کے لیے حفظان صحت کا کوئی ضروری سامان بھی نہیں ہوتا تھا، تو عموماً ایک ہی کپڑا بار بار دھو کر استعمال کرنے سے ایسی اکثر قیدی خواتین پیشاب کے وقت جلن کے احساس، خارش، انفیکشن اور ایسے ہی کئی دیگر طبی مسائل کا شکار بھی ہو جاتی تھیں۔ مزید تکلیف کی بات تو یہ کہ تب اول تو انہیں کسی ڈاکٹر کے پاس لے جایا ہی نہیں جاتا تھا لیکن اگر وہ کبھی کسی ایمرجنسی وارڈ میں لے جائی بھی جاتی تھیں تو اکثر بہت دیر ہو چکی ہوتی تھی۔”

سعدیہ بی بی نے بتایا کہ جیل میں قید کے دوران ان کے لیے ایک اور خوفناک انکشاف یہ بھی تھا کہ "کئی قیدیوں سے رشوت لے کر انہیں سگریٹ اور منشیات جیسی ممنوعہ اشیاء بھی فراہم کی جاتی تھیں اور جیل سے باہر لینڈ مافیا سے تعلقات کی حامل قیدی عورتوں کو تو جیل میں بھی وی آئی پی پروٹوکول دیا جاتا تھا۔”

سعدیہ نے اس گفتگو میں یہ سوال بھی کیا کہ اگر کسی فرد سے کوئی جرم سرزد ہو گیا ہو تو کیا وہ عورت یا مرد اس قابل بھی نہیں رہتے کہ انسان کہلوا سکیں یا ان کے بنیادی انسانی حقوق کا ہی احترام کیا جائے؟

انہوں نے کہا کہ اقلیتی برادریوں سے تعلق رکھنے والی قیدی خواتین کے ساتھ بہت برا رویہ اختیار کیا جاتا ہے، "ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانا یا ان میں گھلنا ملنا تو دور کی بات، ان پر تو نفرت انگیز جملے کسے جاتے ہیں اور بات بات پر طعنے دیے جاتے ہیں۔”

سعدیہ بی بی کے مطابق، "ہم تو اپنے بچوں کو بڑا ہونے تک یہ بھی نہیں بتاتے کہ مسلمان یا مسیحی ہونا کیا ہوتا ہے لیکن ہمارے بچوں کو سکولوں اور معاشرے میں جن رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، وہ انہیں دوسرے درجے کا شہری ہونے ہی کا احساس دلاتے ہیں۔”

ویمن ایڈ ٹرسٹ کی ڈائریکٹر شاہینہ خان نے بتایا کہ پاکستان میں اس وقت 99 جیلیں ہیں، جن میں سینٹرل جیلوں، ڈسٹرکٹ جیلوں، سب جیلوں اور عورتوں کی جیلوں کے علاوہ ہاسٹلز بھی شامل ہیں اور اسپیشل جیلیں بھی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ان میں سے بلوچستان میں گیارہ جیلیں ہیں اور وہاں تقریباً دو ہزار کے قریب قیدی موجود ہیں۔ خیبر پختونخوا کی 23 جیلوں میں قیدیوں کی تعداد تقریباً آٹھ ہزار بنتی ہے۔ پنجاب میں چالیس جیلیں ہیں اور ان میں اکیس سے بائیس ہزار تک قیدی موجود ہیں۔ اسی طرح سندھ کی 26 جیلوں میں تقریباً دس ہزار قیدی موجود ہیں اور گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر میں بھی کئی جیلیں ہیں۔

اعداد و شمار کے مطابق پاکستانی جیلوں میں اس وقت قیدیوں کی کل تعداد اسی ہزار کے قریب بنتی ہے حالانکہ ان میں گنجائش صرف پینتالیس ہزار سے لے کر پچاس ہزار تک قیدیوں کو رکھنے کی ہے۔ ان قیدیوں میں سے تقریباً 97 فیصد مرد ہیں، بچوں کی تعداد 2 فیصد بنتی ہے جبکہ خواتین قیدیوں کا تناسب 1 عشاریہ 2 فیصد بنتا ہے۔ ان عورتوں میں بھی مذہبی طور پر اقلیتی برادریوں سے تعلق رکھنے والی خواتین قیدیوں کی تعداد انتہائی کم ہے۔

شاہینہ خان کے مطابق اس وقت راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں قید عورتوں کی تعداد 153 بنتی ہے جن میں سے چھ خواتین کا تعلق ملک کی مسیحی برادری سے ہے۔ اس کے علاوہ ایک خاتون کا تعلق ہندو اقلیتی برادری سے بھی ہے جو عرصہ دراز سے اس جیل میں بند ہے۔ ان سب کو اپنے اپنے مذہبی تہوار منانے کی مکمل آزادی ہے، ”عشروں بعد ابھی حال ہی میں یہ بھی ہوا کہ اگر کوئی عام قیدی خاتون ناظرہ قرآن مکمل کر لے یا دوران قید میڑک یا ایف اے کی سطح کا کوئی تعلیمی امتحان پاس کر لے تو اسے سزا میں کچھ چھوٹ مل جاتی ہے۔ کبھی کبھی یہ رعایت پانچ سال تک کی مدت کی بھی ہو سکتی ہے۔

ماضی میں لیکن یہ سہولت اقلیتی برادریوں سے تعلق رکھنے والی قیدیوں کے لیے نہیں تھی۔ پھر ابھی حال ہی میں ایک عدالتی حکم کے نتیجے میں بائبل کی پڑھائی مکمل کر لینے والی مسیحی اور گیتا کی پڑھائی مکمل کر لینے والی ہندو خواتین کو بھی ان کی سزاؤں میں چھوٹ دی جا سکے گی۔

جہاں تک رویوں کا تعلق ہے تو پاکستانی جیلوں میں قید زیادہ تر خواتین ناخواندہ ہوتی ہیں۔ ان کی دینی اور دنیاوی تعلیم نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ اسی لیے ان خواتین کی اکثریت کی اقلیتی برادریوں کی خاتون قیدیوں کے بارے میں سوچ یہ ہوتی ہے کہ ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے یا کھانے پینے کے بجائے ان کی تذلیل کی جائے۔”

ویمن ایڈ ٹرسٹ کی کوشش ہے کہ اس پہلو سے جیلوں میں نفسیاتی ماہرین کو بھیج کر ایسی خاتون قیدیوں کے انفرادی رویوں میں اصلاح لائی جائے۔ ویٹ نامی اس ٹرسٹ کا کہنا ہے کہ اس مسئلے کے قانونی پہلوؤں پر نفسیاتی حوالے سے کام کرنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔

خواتین کے اسی امدادی ٹرسٹ کی طرف سے سوشل ورکر اور ماہر نفسیات فوزیہ خالد بھی اڈیالہ جیل میں بطور ماہر نفسیات کام کرتی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ بیس پچیس برس قبل جب ان کی تنظیم نے اڈیالہ جیل میں کام کرنا شروع کیا تھا، تو اس وقت حالات بہت ہی خراب تھے۔ تب جیل میں کوئی طبی سہولیات دستیاب تھیں اور نہ ہی صاف پانی اور دیگر اشیائے ضرورت تک کوئی رسائی ممکن تھی۔

انہوں نے کہا، "ویمن ایڈ ٹرسٹ نے وہاں نہ صرف ایک لائبریری اور بچوں کے لیے ایک کنڈر گارڈن قائم کیے بلکہ عورتوں کو ماہواری کے دنوں میں استعمال کے لیے سینیٹری پیڈز اور دیگر مصنوعات بھی فراہم کرنا شروع کیں۔ اس کے علاوہ ان قیدی خواتین کی ہر طرح کی قانونی مدد کے ساتھ ساتھ ان کی ایسی رہنمائی بھی کی جاتی ہے جو رہائی کے بعد ان کو جیل سے باہر زندگی گزارنے میں بھی معاون ہوتی ہے۔”

فوزیہ خالد کے مطابق گنجائش سے زیادہ قیدیوں والی جیلوں میں موجودہ صورت حال بہت تشویشناک ہے۔ ماہرین کے مطابق رشوت، بددیانتی اور غیرقانونی سرگرمیوں کی روک تھام نہ کرنے کی روایت جیلوں میں امن و امان کی صورت حال کے لیے بڑی پرخطر ہے۔

اس وقت پاکستان کی مختلف جیلوں میں خواتین قیدیوں کو قتل، اغوا، منشیات، کی سمگلنگ اور حدود آرڈیننس کے تحت الزامات میں جن مقدمات کا سامنا ہے، ان کی سماعت طویل قانونی عمل ثابت ہوتی ہے۔ حکومتی سطح پر کئی بار جیل اصلاحات کے لیے کوششیں شروع تو کی گئیں لیکن ان کے ٹھوس نتائج ابھی تک سامنے نہیں آئے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button