بلاگزلائف سٹائل

برین ڈرین: ذہانت کی بیرون ملک فلائٹ

نازیہ سلارزئی

کیا آپ لوگوں کو پتہ ہے کہ ہمارے ملک کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟

ان کو پاکستان میں روشن مستقبل کے آثار نظر نہیں آ رہے۔ وہ انتہائی مایوسی کا شکار ہیں اور کسی بھی حالت میں ملک چھوڑ کر جانا چاہتے ہیں۔ میں تو حیران ہوں کہ حکومت اس سے بے پرواہ کیسے رہ سکتی ہے؟

اسی بارے میں، میں نے ایک دوست سے فون پر بات کی۔  اس نے خیبر پختونخوا کے مشہور غلام اسحاق خان انسٹی ٹیوٹ (GIKI) آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے بارے میں بتایا۔ کہا ہر سال ہزاروں کی تعداد میں اس یونیورسٹی سے طالب علم  فارغ ہوتے ہیں تو آ ئی ٹی کے بین الاقوامی ادارے ان سے رابطہ کر کے کام کی آفر کرتے ہیں مگر پاکستان میں ان سے کوئی بھی رابطہ نہیں کرتا۔

یہ صورتحال صرف اس ایک یونیورسٹی کی نہیں ہے۔

دیگر ممالک میں ان کو پتہ ہوتا ہے کہ اگر ملک کی ترقی کے لیۓ کام کرنے کی صلاحیت رکھنے والے نوجوان ملک چھوڑ کر چلے جائیں گے تو ملک ترقی نہیں کر سکے گا مگر پاکستان میں نوجواںوں کی بیرون ملک فلائٹ روکنے کے کوئی آثار تک دکھائی نہیں دیتے۔

حکومت کی عدم توجہ

ایسا نہیں ہے کہ حکمرانوں کو پتہ نہیں کہ برین ڈرین کس حیران کن حد تک بڑھ رہی ہے۔ ہمارے محکموں کے پاس موجود اعداد و شمار چیخ چیخ کر برین ڈرین کے بارے میں بتا رہے ہیں۔

مگر سیاستدانوں کو اپنی کرسی کی پڑی رہتی ہے۔ ووٹ مانگتے وقت تو نوجوانوں کو نوکریاں دینے کے جھوٹے وعدے کئے جاتے ہیں مگر بعد میں نبھائے نہیں جاتے۔

اسی طرح ملکی معیشت کی ابتر صورتِ حال کی وجہ سے لاکھوں نوجوان ملک کو خیرباد کہہ گئے ہیں۔  یہ سلسلہ بدستور جاری ہے جن میں ذیادہ تر ڈاکٹرز، انجینئرز، نرسز، ایم فل اور پی ایچ ڈی کے سٹوڈنٹس اور دیگر ہنرمند افراد شامل ہیں۔

وطن واپس نا آنے کی چاہ

اپ سب سے میرا ایک سوال ہے کہ کون چاہے گا کہ پردیس سے واپس اپنے وطن لوٹ کر آئے نا؟ اس کے جواب میں پھر مجھے بڑوں کی ایک بات یاد آتی ہے کہ ہر وہ جگہ اچھی ہے جہاں آپ خوش اور پرسکون ہوں۔ برین ڈرین اس قدر بڑھ چکا ہے کہ اگر سو نوجوانوں کو اسکالرشپس پر مختلف ممالک میں پڑھنے کیلئے بھیجا جاتا ہے تو ان میں سے ایک یا دو ہی وطن واپس آنا مناسب سمجھتے ہیں۔

ہو کیا رہا ہے؟

پریشان کن بات تو یہ ہے کہ کوئی بھی  یہ سوچنے کو تیار ہی نہیں کہ اربوں روپے خرچ کر کے باصلاحیت و ہنرمند افراد کس لئے تیار کیے جاتے ہیں؟ آیا اس لیے کہ وہ اپنی تخلیقی سوچ دوسرے ممالک کی ترقی کیلئے استعمال کریں؟ افسوس تو یہ ہے کہ ان سوالات کا جواب ڈھونڈنا جن کی ذمہ داری ہے انہوں نے منہ کو تالے لگائے ہوئے ہیں۔ دنیا میں شاید ہم واحد قوم ہیں جو ملک سے باصلاحیت افراد کے انخلا کو کوئی بڑی بات سمجھتے ہی نہیں ہیں۔

بڑھتی ہوئی بیروزگاری

ہمارے ملک کی معاشی بدحالی کا سب کو پتہ ہے۔ جو لوگ اپنی تعلیم مکمل کر چکے ہیں وہ بھی نوکریوں کے انتظار میں ہیں۔ جن لوگوں کے پاس تھو ڑے بہت وسائل ہیں وہ ملکی حالات سے دلبرداشتہ ہو کر اپنے بچوں کو بیرون ممالک بھیج رہے ہیں جس کی وجہ سے ہمارا ملک ذہانت سے ہاتھ  دھو رہا ہے۔ حکومت کو زیادہ سے زیادہ روزگار کے مواقع پیدا کرنے چاہئیں تاکہ بیروزگاری کی شرح کم ہو سکے اور نوجوان اپنے ہی ملک میں رہ کر ملکی ترقی میں کردار ادا کر سکیں۔

غربت

غربت بھی ایک وجہ  ہے جو تخلیقی اذہان کو اپنا ملک چھوڑنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ مقابلے کے اس دور میں احساس کمتری کی زندگی گزارنا پاکستان میں ایک عام بات ہے۔ اب ایسے حالات میں تخلیقی اذہان اپنی تخلیقی سوچ کو بروئے کار لاتے ہوئے دوسرے ممالک کو ترجیح دیتے ہوئے اپنے مستقبل کو روشن کرتے ہیں۔

لیکن دل تو میرا تب دکھتا ہے کہ چلیے ایک تعلیم یافتہ انسان تو اپنے مستقبل کو سنوارے لیکن ایک غریب بندہ آخر کرے تو کیا کرے؟ کیا وہ اس دو دن کی زندگی کو ارمانوں کے پورا ہونے کے انتظار میں گزارے گا؟

برین ڈرین کو روکنے کیلئے فی الحال تو کوئی کوشش ہوتی نظر نہیں آتی۔ سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ کوئی اس کی روک تھام کیلئے سوچ ہی نہیں رہا ہے۔ نہ ہی کوئی ایسا فورم نظر آتا ہے جو ایسے نوجوانوں اور اربابِ اختیار کے درمیان مسئلے کو حل کرنے کا ذریعہ بنے۔ نوجوانوں کے مسائل سنے جائیں، انہیں سمجھیں اور حل کرنے کیلئے فوری اقدامات کئے جائیں۔

اگر حکومت نے نوجوانوں اور ان کو درپیش مسائل کو حل کرنے کی کوشش نہ کی تو مستقبل میں ہر ادارے کے لیے باصلاحیت و باشعور افراد کو مہنگے داموں بلانا پڑے گا۔ اس سے اچھا ہے کہ اپنے ہی نوجوانوں پر توجہ مرکوز کی جائے اور ان پر وسائل خرچ کئے جائیں تاکہ مستقبل میں اپنے ملک کو فائدہ پہنچ سکے۔

آپ کی نظر میں برین ڈرین کو روکنے کیلئے کیا کرنا ضروری ہے؟

نازیہ سلارزئی اکنامکس گریجوئیٹ اور بلاگر ہے۔

ٹوئیٹر ہینڈل: Nazia Salarzai@

 

 

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button