سوات: سکول وین پر فائرنگ سے ڈرائیور جاں بحق، ایک بچہ زخمی
رفیع اللہ خان
سوات کی تحصیل چارباغ کے علاقے گلی باغ میں سکول وین پر نامعلوم افراد کی فائرنگ سے ڈرائیور موقع پر جاں بحق جبکہ ایک بچہ شدید زخمی ہو گیا۔ چار باغ پولیس کے مطابق نجی سکول وین میں بچے سکول جا رہے تھے کہ گلی باغ کے مقام پر نامعلوم مسلح موٹرسائیکل سواروں نے ان پر فائرنگ کر دی جس کے نتیجے میں وین کے ڈرائیور حسین احمد موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے جبکہ ایک بچہ زخمی ہو گیا جس کو فوری طبی امداد کے لئے سیدو شریف ہسپتال منتقل کیا گیا۔ واقعہ کے بعد پولیس نے جائے وقوعہ پر پہنچ کر شواہد اکٹھے کئے جبکہ ملزمان واردات کے بعد فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ اس افسوس ناک واقعہ کے بعد علاقے کی فضا ایک بار پھر سوگوار ہو گئی اور لوگوں میں خوف اور تشویش کی لہر دوڑ گئی۔
وقوعہ کے بعد علاقے کے لوگ جاں بحق ہونے والے ڈرائیور کا جسد خاکی کو خوازخیلہ سڑک پر رکھ کر شدید احتجاج کر رہے ہیں۔
دوسری جانب سوات پولیس نے موقف اپنایا ہے کہ نامعلوم شخص کا ٹارگٹ سوزوکی ڈرائیور حسین احمد ولد عنایت الرحمان تھا، وقوعہ کے بعد نامعلوم شخص سے ایک عدد جیکٹ (بلاؤز) اور ایک عدد موٹرسائیکل ہیلمٹ رہ گیا، سوشل میڈیا پر وقوعہ کو سکول کے بچوں کو ٹارگٹ کرنے کا رنگ دیا جا رہا ہے، سوات پولیس جائے وقوعہ پر موجود ہے اور علاقہ میں سرچ آپریشن کا آغاز کر دیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ چند دن قبل مینگورہ بائی پاس روڈ اینگرو ڈھیری کے قریب مبینہ مقابلے میں باپ بیٹا جاں بحق اور فورسز کے چار اہلکار زخمی ہو گئے تھے۔ محکمہ انسداد دہشت گردی ملاکنڈ ریجن کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق بائی پاس پر فوج، ایف سی اور دہشت گردوں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا جس میں دو دہشت گرد ہلاک اور فورسز کے کیپٹن ذوالفقار، نائیک گل صادق، لانس نائیک نصیر اقبال اور سپاہی ساجد زخمی ہو گئے جن کو طبی امداد کے لئے ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔
اس واقعہ میں ایک نیا موڑ اس وقت آیا جب اس کی سی سی ٹی وی فوٹیج منظر عام پر آ گئی اور ساتھ ہی مقتول کے بیٹے کا بیان بھی سامنے آ گیا۔
علی سید کے بیٹے وقاص احمد کے مطابق ان کے والد اور بھائی دونوں دہشت گرد نہیں تھے بلکہ رقم کے لین دین کے معاملے پر دونوں کو مارا گیا جس میں ایک افغانی، ایک سوات اور ایک پنجاب سے تعلق رکھنے والا شخص بھی ملوث ہے۔
انہوں نے کہا کہ مرحوم والد کا بائی پاس پر وزن کا کانٹا تھا، ان کا دوسرا بھائی اویس احمد سوات میں موجود کچھ افغانیوں اور پنجاب کے لوگوں کے ساتھ ملازم تھا۔ اویس ان کا ایک چیک بینک سے کیش کر کے فرار ہو گیا تھا جس کے بعد وہ لوگ رقم کی واپسی کے لئے دھمکیاں دے رہے تھے، اس مسئلے میں علاقہ مشران کا جرگہ بھی ہوا تھا، سات روز قبل نامعلوم نقاب پوش افراد نے ان کے بھائی 19 سالہ اَنیس کو کانٹا سے اغوا کیا تھا اور ہفتے کی صبح سادہ لباس میں صبح سویرے کچھ نقاب پوش افراد ایک گاڑی پاسو میں ان کے بھائی کو لے کر آئے، کانٹا میں میرے والد کے کمرے میں گئے اور رقم کا مطالبہ کیا، گالم گلوچ کے دوران فائرنگ شروع ہوئی، میرے والد کی فائرنگ سے چار نقاب پوش افراد زخمی ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ افغانیوں اور پنجاب کے لوگوں کی رقم جو میرا بھائی لے کر بھاگ گیا تھا، اس میں سے ہم نے زیادہ رقم ادا کی ہے، اب صرف بارہ لاکھ روپے باقی ہیں۔
انہوں نے چیف جسٹس پاکستان اور چیف آف آرمی سٹاف سے مطالبہ کیا کہ اس واقعے کی آزادانہ تحقیقات کی جائیں۔
دوسری جانب سوات میں پائیدار امن کے قیام اور دہشت گردی کے خلاف احتجاج کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ کچھ روز قبل خوازہ خیلہ چوک میں بڑا احتجاجی مظاہرہ کیا گیا جس میں سوات قومی جرگہ، سیاسی پارٹیوں کے ضلعی قائدین اور سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے افراد اور علاقہ مشران نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔
احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے مقررین کا کہنا تھا کہ سوات میں وہ کسی بھی صورت دہشت گردی کے لئے تیار نہیں، وہ لوگ جو اہلِ سوات کو نکالنا چاہتے ہیں، اب اہلِ سوات انہیں سوات سے نکال دیں گے۔
انہوں نے کہا کہ جب تک سوات کی سرزمین پر ایک بھی دہشت گرد موجود رہے گا اس وقت تک احتجاج کا یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ مقررین نے مطالبہ کیا کہ مٹہ کالج اور شیر پلم سکول کو خالی کیا جائے تاکہ وہاں نصابی سرگرمیاں شروع ہو جائیں۔
سوات بار ایسوسی ایشن کی ایک تقریب میں کبل بار کے صدر سردار خان یوسف زئی نے چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ کو مخاطب کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ سوات میں دہشت گردوں کے واپس آنے اور امن و امان کی خراب صورتحال پر از خود نوٹس لے کر تحقیقات کے لئے کمیشن بنایا جائے جس کے بعد چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ جسٹس قیصر رشید نے اپنے خطاب میں کہا کہ سوات میں امن و امان کی صورتحال سے آگاہ ہوں اور امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال کو اعلیٰ سطح پر اٹھایا گیا ہے۔
یاد رہے کہ سوات میں امن و امان کی کشیدہ صورتحال کے پیش نظر اولسی پاسون کے زیر اہتمام کل منگل کے روز نشاط چوک مینگورہ میں احتجاج کی کال بھی دی گئی ہے۔