لائف سٹائلکالم

مراکش پر دنیا کی غذاء کا انحصار اور اک خدشہ

محمد سہیل مونس

مراکش براعظم افریقہ کا ایک چھوٹا سا ملک ہے جو اس براعظم کے شمال مغربی کونے پر واقع ہے جس کے مغرب میں بحر اوقیانوس تو شمال کی جانب بحیرہ روم جبکہ الجیریا مشرق کی جانب اور شمالی صحارا کا حصہ واقع ہے۔ اس کا کل رقبہ کیلیفورنیا کے برابر ہے جس کے ساحل کو بلند و بالا پہاڑ صحرائے صحارا سے جدا کرتے ہیں۔

مراکش میں سن 1921 میں فاسفیٹ کی مائننگ کا کام شروع ہوا، مراکش کے پاس فاسفورس اور سینتھیٹک کھاد کی بہتات تھی جس کی دریافت کے بعد سے دنیا میں غذائی اجناس میں ریکارڈ اضافہ ہوا اور زراعت کے شعبہ میں انقلاب برپا ہو گیا۔

اس بات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سن 1920 میں دنیا کی کل آبادی صرف ایک اعشاریہ آٹھ ارب نفوس پر مشتمل تھی اور محض سو برسوں میں یہ آبادی سات اعشاریہ نو ارب تک پہنچ گئی۔ اس وقت مراکش دنیا کو کھاد فراہم کرنے والا پانچواں بڑا ملک ہے جو 45 قسم کی کھادیں پروڈیوس کرتا ہے اور اچھا خاصا زرمبادلہ کما رہا ہے۔ مراکش میں حالیہ برسوں کی تحقیق کے بعد سے جو رپورٹس سامنے آئی ہیں اس کے مطابق دنیا کے 70 فیصد فاسفیٹ کے ذخائر یہاں پر واقع ہیں۔

ایک سروے کے مطابق کووڈ کی وباء کے دوران مراکش میں کھاد بنانے کی صنعت بھی کافی متاثر ہوئی، یونائیٹڈ نیشن کے ادارے فوڈ اینڈ ایگری کلچر ڈیپارٹمنٹ کی سن 2021 کی رپورٹس میں بتایا گیا کہ ساری دنیا میں خوراک کی قیمتوں میں 28 فیصد اضافہ ریکارڈ ہوا جو گزشتہ دس سال میں سب سے اونچی سطح تھی جس کی وجہ سے 768 ملین لوگوں کو خوراک کی کمی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس دور میں افریقہ کے 282 ملین لوگ خوراک کی کمی کا شکار رہے اور وہاں پر قحط کا سا سماں دیکھنے کو ملا۔

مراکش کو آنے والے دور میں دنیا کی بھوک سے نمٹنے کے لئے 2025 تک سلفیٹ کی پیداوار بڑھانے واسطے تندہی سے کام کرنا پڑے گا جس پر اس کے استعمال کی بجلی کا سات فیصد، پانی کا ایک فیصد اور کھاد بنانے کے دوسرے اجزاء مکس کرنے پر قدرتی گیس کا بڑا حصہ صرف کرنا پڑے گا۔

دنیا میں کووڈ کے بعد کی دنیا میں جہاں دیگر کئی چیزوں کی قیمتیں بڑھی ہیں وہاں خصوصاً بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بھی کافی اضافہ ہوا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ان چیزوں کی دستیابی کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی آلودگی سے نمٹنے کے لئے وہ کیا لائحہ عمل اختیار کرتے ہیں کیونکہ دنیا کو ہر حال میں روزانہ کروڑوں میٹرک ٹن خوراک کی ضرورت پڑتی ہے جس کا حصول ممکن بنانا دنیا کے پالیسی میکرز کا کام ہے۔

مراکش شمسی توانائی کے ساتھ ساتھ ہوائی پن چکیوں سے بھی بجلی کی پیداوار کو بہتر بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور دنیا کے دیگر ممالک ضرور اس مد میں ان کی مدد کریں گے لیکن گیس، پانی اور ماحولیاتی آلودگی کا مسئلہ بہرحال ایک سوالیہ نشان ہے۔

اس وقت چین جو دنیا میں پانچ فیصد سلفیٹ پروڈیوس کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے تاہم اس نے اس کی برآمد پر پابندی لگا دی ہے تاکہ چین اپنے لوگوں کی غذائی ضروریات پوری کر سکے۔ اب جب کہ کووڈ کے بعد کی دنیا میں کووڈ نے انسان کو بہت کچھ سوچنے پہ مجبور کر دیا ہے وہاں خوراک کی قلت پر قابو پانے کے لئے کئی جتن کئے جا رہے ہیں کیونکہ مستقبل قریب میں جب انسانی آبادی اس رفتار سے بڑھے گی تو خوراک کی کمی کا مسئلہ بہرصورت پیش آئے گا۔

انسان نے اگرچہ کھاد کے استعمال کے بعد سے ایک ہی سال میں ایک ہی زمین سے کئی فصلیں لینا ممکن بنایا ہے لیکن اس کے سائیڈ ایفکٹس بھی روزانہ کی بنیاد پر سامنے آ رہے ہیں لیکن اب یہ بات قصہ پارینہ بن چکا ہے۔ انسان نے اپنی بقاء کے لئے کچھ نہ کچھ تو کرنا ہے لیکن سب سے خطرناک چیز جو میں دیکھ رہا ہوں وہ ہے مراکش کی اسی خوبی کی وجہ سے اس کی شامت بننا۔

اس بات کے دو پہلو ہیں پہلا تو یہ کہ مراکش آنے والے وقت میں دبئی یا دوسرے تیسرے کسی عرب ملک کی طرح ترقی کرلے گا اور ان کے لوگوں کا معیار زندگی بہتر ہو گا یا پھر یہ لوگ محض مزدور ہی رہ جائیں گے اور اس کے فوائد کوئی اور اچک کر لے جائے گا۔

دوسرا پہلو یہ کہ جس طرح عرب دنیا کے دوسرے ممالک کو مغرب نے سرنگوں کر دیا تو ایسا نہ ہو کہ بڑی طاقتیں ان کا بھی ستیاناس کر دیں اور مراکش ایک خوبی کی وجہ سے بارود کی نذر ہو جائے۔

اس بات سے قطعی انکار ممکن نہیں کہ دنیا ایک بار پھر سے دو بلاکس میں تقسیم نظر آتی ہے اور خدانخواستہ مراکش بھی ان طاقتوں کے بیچ چیونٹی بن کر رہ گیا تو انسانیت کے لئے خوراک کے مسائل سر اٹھا سکتے ہیں لہٰذا دنیا کو چاہیے کہ جو قوت وہ انسانیت کو ذلیل کرنے کے لئے استعمال کرتی ہے تو اس سے آدھی قوت صرف کرنے سے دنیا جنت نظیر بن سکتی ہے۔

monis
محمد مونس سہیل بنیادی طور پر ایک شاعر و ادیب ہیں، ڈرامہ و افسانہ نگاری کے علاوہ گزشتہ پچیس سال سے مختلف اخبارات میں سیاسی و سماجی مسائل پر کالم بھی لکھتے ہیں۔
Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button