عذراء آپا ساکن گاڑی نمبر ایل ای بی۔ 7688 چل بسیں
محمد سہیل مونس
کہتے ہیں کہ گردش دوراں بڑے بڑے سورماؤں کو دھول چٹا دیتی ہے؛ ایک دفعہ پستیوں کی جانب انسان کا سفر شروع ہو جائے تو تھمنے کا نام تک نہیں لیتا۔ میں آج کافی دکھی ہوں اور وہ اس لئے کہ میری فطرت کچھ اس طرح ہے کہ میں کسی بھی ذی روح کو تکلیف میں نہیں دیکھ سکتا اور کل ہی ایک ایسی ویڈیو دیکھی جس میں صارم برنی صاحب نے اس عورت کے دار فانی سے کوچ کرنے کی خبر دی جس کی کافی ساری ویڈیوز مختلف لوگ اپ لوڈ کر چکے ہیں۔
قارئین میں بات کر رہا ہوں عذراء آپا کی جو لاہور کی رہائشی تھیں اور بڑے ناز و نعم میں پلی بڑی، جس نے کم از کم 9 تو ماسٹر ڈگریز حاصل کیں جن میں سے ایک چار سالہ بینکنگ کی ڈگری لندن سے بھی حاصل کی اور پھر انہوں نے لندن ہی میں وہاں کے ایک بینک بی سی سی آئی میں ملازمت اختیار کی اور جلد ہی بینک کے کرتا دھرتاؤں میں ان کا شمار ہونے لگا۔
اس دور میں ان کے ہاں پاکستان کے نامی گرامی سیاستدان اور اعلیٰ شخصیات آ کر رکتی تھیں، جن میں سے ان کے منہ بولے بھائی غلام مصطفیٰ کھر صاحب بھی تھے۔ وہ مزید کہتی تھی کہ ان کے عروج کے دور میں تہمینہ درانی ان کی بڑی اچھی سہیلی تھی جو کہ اس وقت غلام مصطفیٰ کھر کی بیوی تھی اور جو آج کل موجودہ وزیر اعظم جناب محمد شہباز شریف کی بیگم ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ آصف علی زرداری صاحب کے والد حاکم علی زرداری ایک بار ان کے ہاں سندھ میں شوگر مل لگانے کے لئے ان کے بینک سے قرض لینے واسطے بھی آئے لیکن ان کی درخواست پر عمل درآمد نہیں ہوا۔ ان کے نانا نے لاہور چھاؤنی کے علاقے میں پولو گراؤنڈ بنوایا، ان کی والدہ کی ایک عالیشان کوٹھی کراچی میں کاردار روڈ پر واقع تھی جبکہ عارف جان مارکیٹ لاہور میں ان کا ذاتی گھر تھا جس کی قیمت آج کے دور میں کروڑوں روپے ہے۔
ان کے لندن میں قیام کے دوران وہاں پر دو بڑے بڑے فارم ہاؤسز تھے اور اس کے علاوہ بھی کافی بینک بیلنس، جائیداد اور کروفر کی مالک تھیں۔ اس زمانے میں انھوں نے عمران خان اور جمائمہ کی شادی کے علاوہ شہید بینظیر بھٹو کی شادی میں بھی شرکت کی جبکہ ایک دور میں اندرا گاندھی سے بھی ملاقات ہوئی۔
انھوں نے کسمپرسی کی حالت تک پہنچنے کی روداد کچھ یوں بیان کی کہ ان کے بینک کو کسی یہودی لابی نے اتنا خراب کر دیا کہ وہ دیوالیہ ہو گیا اور وہ بچاری پاکستان واپس لوٹ آئیں اور پھر مصائب کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ایک کے بعد دوسرے اور دوسرے کے بعد تیسرے حادثے نے اس کی زیست اتنی اجیرن کر دی کہ بات سمجھ سے بالاتر ہوتی چلی گئی، حتیٰ کہ ان کے پاس اتنی جمع پونجی باقی رہ گئی کہ اس نے سارا کچھ بھلا کر ایک بوتیک کھول لی لیکن ان کا اندھا اعتماد انھیں لے ڈوبا اور ایک عیار شخص ان کی جمع پونجی بھی اڑا لے گیا۔
یہ لاڈوں پلی سڑک پر آ گئی اور لاہور کی ایک شاہراہ پر چھوٹی سی آلٹو گاڑی کو اپنا مسکن بنا لیا جس میں اس نے انہوں ضرورت کی چیزیں رکھی ہوئی تھیں جیسے کپڑے، برتن اور دیگر سامان وغیرہ، جب ان سے پوچھا گیا کہ سردیوں میں ٹھنڈ نہیں لگتی تو بتاتی کہ میرے پاس تین بلیاں ہیں میرے جسم کو گرم رکھنے کے لئے وہ بھی کافی ہیں کم از کم ایک احساس سے عاری انسان سے تو بہتر ہیں۔
انھوں نے اپنی باقی ماندہ زندگی اس امید کے ساتھ گزاری کہ اللہ تب بھی تھا اور آج بھی ہے میرا مکمل یقین ہے کہ یہ کرب کے دن بھی ٹل جائیں گے جس طرح مجھ پہ وہ پہلے کی زندگی میں مہربان تھا اسی طرح یہ دن بھی پھیر دے گا لیکن ان کی یہ خوش فہمی حقیقت میں ڈھل نہ سکی اور آخرکار انتہائی بیمار حالت میں انھیں صارم برنی ٹرسٹ والے اٹھا کر لے گئے اور اسی حالت میں دارفانی سے کوچ کر گئیں۔
وہ کہتی تھیں کہ مجھ سے میرے عروج کے دور میں جن جن افراد نے اپنے مفادات حاصل کئے ہیں ان میں سے نہایت ہی کم لوگ میرا اس حالت میں پوچھنے آئے لیکن میں بھی بڑی غیرتی خاتون ہوں کسی بھی شخص کی مدد قبول نہیں کی کیونکہ جو ہے وہ خدا کی جانب سے ہے میں کیوں انسانوں کا احسان لیتی پھروں۔
قارئین اس خاتون کی اندر کی کہانی تو بہت واضح طور پر سامنے نہ آ سکی لیکن ان کی روداد سے لگتا کچھ یوں ہے کہ خدا ہی ہے جو انسان کے حالات کو بدلتا رہتا ہے لیکن کبھی کبھار آزمائش کی گھڑی بھی اتنی طویل کر دیتا ہے کہ دل کا زور ختم ہو جاتا ہے۔
ہم اس حقیقی کہانی میں اس خاتوں کا متزلزل ایمان تو ملاحظہ کر سکتے ہیں لیکن اس بات کا سرے سے علم نہیں کہ ان کے کن اعمال کی وجہ سے ان کی آزمائش اتنا طول پکڑ گئی لیکن اس واقعہ میں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ان کی اس حالت کا ذمہ دار محض عرش والا نہیں تھا بلکہ فرش والوں نے بھی اپنے تئیں ان کو موقع و محل کے مطابق مسلسل ٹھیس پہنچانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔
اس طرح کے لوگ جو باہر کی دنیا سے لکھ پڑھ کر آتے ہیں یا پھر زندگی کا کافی عرصہ وہاں گزار کر آتے ہیں، اکثر یہاں کے چور اچکوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں کیونکہ ان کو تو زبان پہ یقین ہوتا ہے لیکن وہ لوگ یہ نہیں جانتے کہ زبان زبان کی بات ہے اگر ہے بھی تو کس جانور کے منہ میں ہے۔
ہمیں من حیث القوم اپنے رویوں پر نظرثانی کی اشد ضرورت ہے کیونکہ انسانی معاشرے سچ، ایمانداری، خلوص اور اس طرح کے انمول جذبوں سے چلتے ہیں۔ عذراء آپا کی اس ناگفتہ بہہ حالت کی ذمہ داری صرف خدا کے آزمائش کا نتیجہ نہیں تھی بلکہ ہم لوگوں کے انسانیت سوز رویے بھی اس میں شامل تھے ورنہ ایک اتنی قابل خاتون اس طرح ضائع کرنے کے قابل تھی؟
ذرا سوچیے اور اپنے آس پاس اس طرح کے لوگوں کی ہمت باندھنے کی کوشش کیجیے تاکہ آسمان والا ہم سے راضی ہو۔