کیپرا کون سے شعبوں سے کتنا ٹیکس وصول کرتی ہے اور عوام کو کس طرح پتہ چلے گا؟
خیبر پختونخوا ریونیو اتھارٹی حکام کا کہنا ہے کہ صوبے کو سب سے زیادہ ٹیکس ٹیلی کمیونیکیشن کمپنیوں کی جانب سے ملتا ہے جبکہ وکلاء اور پرائیویٹ ہستپالوں کے مالکان ٹیکس دینے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں لیکن کیپرا کو کون سے شعبے کتنا ٹیکس دیتے ہیں اور عوام کو اپنے ٹیکسز کے بارے میں کیسے پتہ چلے گا۔
اس حوالے سے کیپرا نے یو ایس ایڈ کے پی آر ایم کے تعاون سے آگاہی پروگرام کا سلسلہ جاری رکھا ہے جس کا مقصد صوبے کے خزانے میں زیادہ سے زیادہ ٹیکس جمع کرنا ہوتا ہے اور پھر اس پر ترقی اور عوام کو سہولیات دینے کے منصوبے بنانے ہوتے ہیں۔
اس حوالے سے کیپرا کے کمیونیکیشن شعبے کے ڈائریکٹر آفتاب احمد نے کہا کہ ہمارے پاس 92 سروسز ہیں جن پر ہم ٹیکس وصول کرتے ہیں اور پھر اس میں شراکت کر کے 47 شعبوں سے ٹیکس وصول کرتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ ہوٹل، موٹل اور ریستوران کو ایک سروس کر کے مہمان نوازی کے شعبے میں ڈال دیا ہے تو اس حوالے سے 47 شعبے بنتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ عوام کو سروسز پر سیلز ٹیکس دینے کے حوالے سے اس طرح پتہ لگے گا کہ جو چیزیں ٹچ کرنے کے قابل ہوں یعنی اشیاء تو اس پر وفاقی ادارہ ایف بی آر کو ٹیکس دیا جا سکتا ہے مگر جو چیزیں ٹچ ایبل نہ ہوں اور خدمات دینے کی شکل میں کام کرتی ہوں تو ان پر کیپرا ٹیکس وصول کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے ساتھ شیڈول ون پر موجود کاروباروں کے نام ہیں ان پر آٹھ فیصد ٹیکس ہے لیکن اگر ریسٹورنٹ انٹرنیشنل چین ہو تو اس پر 15 فیصد ٹیکس لاگو ہوتا ہے لیکن اگر پھر بھی کسی کو سمجھ نہیں آتی تو وہ آن لائن سروسز کے بارے میں جان سکتے ہیں۔
آفتاب احمد کا ایکٹ 2022 پر بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کیپرا کا قیام 2013 میں عمل میں لایا گیا تھا، چونکہ یہ ایکٹ اس وقت موجود نہیں تھا لیکن 2013 سے پہلے بھی سروسز پر ٹیکس کلیکٹ ہو رہا تھا اور وہ ایف بی آر کو جمع ہو رہا تھا مگر ٹیکس کی شرح کم تھی، پھر اٹھارہویں ترمیم کے بعد کیپرا کا قیام عمل میں لایا گیا لیکن اب کیپرا بن گئی ہے تو اس کے قانون کے تحت کپرا ٹیکس وصول کرتی ہے۔
ان کے مطابق پہلے یہ ادارہ قانونی بل کے تحت چلتا تھا مگر ادارے مستقل طور پر بل کے ذریعے نہیں چل سکتے اس کے لئے ایک ایکٹ پاس کرنا ہوتا ہے اور یہ ایکٹ گزشتہ سال بجٹ میں خیبر پختونخوا ریونیو اتھارٹی ایکٹ 2022 بن گیا جس کے تحت ادارے کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کیلئے پورا اختیار دیا گیا ہے۔
آفتاب احمد نے رجسٹرڈ اداروں کے بارے میں بتایا کہ اس وقت 20 ہزار کے قریب ادارے رجسٹرڈ ہیں جن میں انفرادی اور ایسوسی ایشنز شامل ہیں مگر انفرادی ٹیکس پیئر کی تعداد زیادہ ہے مثلاً ایک ٹھیکیدار انفرادی ٹیکس پیئر ہوتا ہے جب تک وہ ہمارے ساتھ رجسٹرڈ نہیں ہوتا تو وہ کسی بھی ٹینڈر میں حصہ نہیں لے سکتا ہے لیکن بدقسمتی سے کچھ پرائیویٹ ہسپتال کے مالک ٹیکس نہیں دے رہے ہیں اور وہ اس کے خلاف عدالت میں گئے ہیں مگر یہ صوبے کے ساتھ زیادتی ہو گی اگر یہ لوگ ٹیکس سے باہر ہو گئے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت سب سے زیادہ ٹیلی کمیونیکیشن کے اداروں سے 19 فیصد ٹیکس وصول کرتے ہیں اور یہ ہمارے تمام ٹیکس پیئرز میں سب سے زیادہ ٹیکس دینے والی کمپنیاں ہیں اور سب سے کم ڈھابوں وغیرہ سے لیا جاتا ہے لیکن ان سب کی وجہ سے تمام صوبے میں ترقی کے منصوبے ممکن ہو جاتے ہیں۔
آفتاب احمد نے آن لائن کاروبار کے بارے میں بتایا کہ جس طرح ہم نے پہلے وضاحت کی کہ جو چیزیں ٹینجیبل چیزیں ہوتی ہیں ان پر ٹیکس لاگو ہوتا ہے تو چونکہ یہ آن لائن کاروبار ہے تو اس پر بھی ٹیکس کیپرا کا ہی لاگو ہو گا مگر اس کے ساتھ انکم پر ایف بی آر کو ٹیکس دیا جائے گا۔
انہوں نے کار بارگین، وکلاء اور پرائیویٹ ہسپتالوں کے مالکان سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ ٹیکس دینا ایک قومی فریضہ ہے جس سے ماحول، انفراسٹرکچر اور عوام کو بنیادی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں لیکن اگر یہ ٹیکس جمع نہیں کیا جاتا ہو تو صوبے کی ترقی کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں۔