سوات میں شمشان گھاٹ؛ مذہبی آزادی اور میانہ روی کا منہ بولتا ثبوت
شہزاد نوید
خیبر پختونخوا کے ضلع سوات میں ریاست دور سے سیکڑوں سکھ خاندان آباد ہیں جنہیں اپنے انتم سنسکار کیلئے شمشان گھاٹ کی اشد ضرورت تھی، مسلمانوں نے دریائے سوات کے کنارے بائی پاس روڈ پر بارعایت زمین دے کر شمشان گھاٹ کی تعمیر کو ممکن بنایا۔
شمشان گھاٹ کی تعمیر سے قبل سکھ کمیونٹی کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا کیونکہ انہیں اپنے انتم سنسکار کے لئے زمین کی ضرورت ہوتی تھی، اور ہر کوئی ان کو انتم سنسکار کے لئے زمین دینا مناسب نہیں سمجھتا تھا، کئی بار انہوں نے لوگوں کے سامنے دریائے سوات کے کنارے پر اپنی میت کی آخری رسومات ادا کی ہیں۔
بنسری لال کے مطابق مینگورہ شہر میں اقلیتی برادری کے لئے چالیس سال تک شمشان گھاٹ کی سہولت نہیں تھی ہم اپنی میت کی آخری رسومات دریائے سوات کے کنارے لوگوں کے سامنے کرتے تھے، پھر یوں ہوا کہ کئی مرتبہ مسلمان بھائیوں نے ہمیں آخری رسومات کے لئے کھیت دیئے لیکن پھر ان کے بعد کچھ مسلمان بھائی یہ سمجھتے تھے کہ انہوں نے اپنے کھیت کو گندا کیا اور اب کھیت کی فصل بھی دیگر مسلمان بھائیوں پر حرام ہے، ہمیں خود اس وقت عجیب کیفیت کا سامنا ہوتا تھا لیکن پھر بھی کافی حد تک مسلمان بھائیوں نے ہمارا ساتھ دیا اور لوگوں کی باتوں کی پرواہ کے بغیر ہمارے ساتھ بھائی چارہ قائم رکھا۔
مسلمان بھائیوں کی مدد سے اور پھر بعد میں کچھ حکومت اور کچھ ہمارے اپنے لوگوں نے شمشان گھاٹ کی جگہ خرید لی، شمشان گھاٹ کے لئے ہم نے دریائے سوات کے کنارے ایک کنال سے زائد زمین بارعایت ابن امین ولد عالمگیر سے اس وقت 6 لاکھ 60 ہزار روپے پر خریدی تھی، اب دریائے کے کنارے ان زمینوں کی قیمت کڑوروں میں ہے۔
سوات کا امن اور سکھ برادری
سوات میں سکھ برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کی اکثریت اپنا کاروبار چلاتی ہے، ان کے 3 گوردوارے (دو مینگورہ، ایک خوازہ خیلہ) اور اتنے ہی شمشان گھاٹ (بریکوٹ، خوازہ خیلہ اور مینگورہ) ہیں جہاں پر وہ بلاخوف و خطر اپنی عبادات اور رسومات ادا کرتے ہیں، یہ سکھ کمیونٹی اب پشتون معاشرے کا حصہ بن چکی ہے اور پشتون مسلمانوں کے رسم و رواج بھی اپنا چکی ہے، ہومی سنگھ کے مطابق ریاست سوات کے دور میں اقلیتی برادری کو پیشکش کی گئی تھی کہ اگر وہ ہندوستان جانا چاہتے ہیں تو انہیں باعزت طریقے سے بھیج دیا جائے گا تاہم ہمارے بڑوں نے سوات کے امن و امان کی وجہ سے ان کی پیشکش ٹھکرا دی تھی۔
شمشان گھاٹ کا قیام
گردوارے میں سکھ مذہب کی مقدس کتاب سری گرو گرنتھ صاحب کو پڑھانے والوں کو ہیڈ گرانتھی کہا جاتا ہے۔ سوات میں ہیڈ گرانتھی بنسری لال ہیں، جن کے مطابق ہندو اور سکھ برادری کو اپنے مردوں کی آخری رسومات ادا کرنے کیلئے شمشان گھاٹ کی ضرورت تھی جسے مسلمان اور سکھ کمیونٹی نے مل کر پورا کر دیا، وادی سوات میں سیکڑوں سکھ خاندان ریاست سوات کے دور سے آباد ہیں، شمشان گھاٹ بنانے کیلئے سستے داموں زمین اور مالی معاونت فراہم کیے جانے کے بعد اب سکھ اور ہندو اپنے مردوں کا بہ آسانی انتم سنسکار کر سکتے ہیں۔
بنسری لال کے مطابق خیبر پختونخوا کے دیگر اضلاع کی طرح سوات میں ہمیں ثفافتی مسائل ہیں جو اقلیت ہونے کی وجہ سے دنیا کے ہر کونے میں درپیش ہیں لیکن اتنی بڑی بات نہیں، اس کا سامنا سوات میں ہم بھائی چارے کے ساتھ کر رہے ہیں۔
سکھ سوات کیسے اور کیوں آئیں؟
بنسری لال نے بتایا کہ ہماری تعداد سوات میں اس لیے زیادہ ہے کہ 200 سال قبل ہمارے آباؤ اجداد یہاں کاروبار کی غرض سے آئے اور یہاں آباد ہوئے، اس وقت سے لے کر آج تک سکھ برادری اور مسلمان بھائی آپس میں بہتر تعلقات اور میل جول رکھتے ہیں۔
سوات کے تاریخ دان ڈاکٹر فضل خالق نے کہا کہ سوات میں اقلیتی برادری کی تاریخ بہت پرانی ہے اس وقت اقلیتی برادری بالائی اور دریائے سوات کے کناروں پر آباد تھی لیکن جب 1917 میں میاں گل عبد الودود "بادشاہ صاحب” کو ریاست سوات کا بانی مقرر کیا گیا تو زیادہ تر اقلیتی برادری دریائے سوات کے کناروں سے ہجرت کر کے مینگورہ شہر میں داخل ہوئی اور دیگر مسلمانوں کے ساتھ زندگی شروع کی، اس وقت ریاست سوات کا ایک پرامن ماحول تھا۔
مذہبی ہم آہنگی ضروری کیوں؟
مذہبی ہم آہنگی پر کام کرنے والی جمائما آفریدی نے بتایا کہ آئین پاکستان کے تحت ہر شہری کو مذہب اور عبادت کی آزادی حاصل ہے، ریاست کے مساوی شہری ہونے کے ناطے حکومت اقلیتوں کو اپنی صلاحیتیں بھرپور طور پر بروئے کار لانے کے مواقع فراہم کر رہی ہے، سوات میں سکھ برادری کی مسلمانوں کے ہاں آنیاں جانیاں لگی ہی رہتی ہیں اور اپنی خوشیوں میں باقاعدہ مسلمان بھائیوں کو مدعو بھی کرتے ہیں جبکہ مسلمان بھی خندہ پیشانی سے ان کی دعوت قبول کرتے ہوئے ان کی خوشیوں میں شریک ہوتے ہیں، ان خوشیوں کو مزید دوبالا کرنے کے لئے انسانی اور اقلیتی حقوق کے بارے میں آگاہی سیمنار اور دیگر سیشن زیر غور ہونے چاہئیں، "کسی معاشرے میں امن کا قیام اس بات سے تعلق رکھتا ہے کہ وہاں مذہبی ہم آہنگی اور عدم برداشت ہے کہ نہیں، سوات میں مذہبی ہم آہنگی یہاں پر پائیدار امن کی ضامن ہے۔”
انہوں نے کہا کہ ریاست سوات کے دور میں بادشاہ صاحب نے اقلیتی برادری کے ہر فرد کو اپنی بیٹی اور بیٹوں کی طرح پالا ہے۔
پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق
انسانی حقوق پر کام کرنے والی تبسم عدنان نے بتایا کہ ایک تو ہمارے ثقافتی مسائل ہیں جو اقلیت ہونے کی وجہ سے دنیا کے ہر کونے میں درپیش ہوتے ہیں، یہ اتنی بڑی بات نہیں، اس کا سامنا سوات میں ہم بھائی چارے کے ساتھ کر رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ خیبر پختونخوا کے مختلف سرکاری محکموں میں اقلیتوں کے لیے بہت کم کوٹہ رکھا گیا ہے، اس مسئلے کو بھی ہم دیکھ رہے ہیں اس کو بھی جلد از جلد حل کیا جائے گا، اقلیتی برادری کثیر اللسانی اور کثیر العقائد معاشرت کا لازمی حصہ ہے، ہم تمام مذاہب اور برادریوں کے باہمی احترام پر مبنی معاشرے کی تعمیر کے عزم کا اعادہ کرتے ہیں، ایک ایسا روادار معاشرہ اور ریاست جو اپنے تمام شہریوں کو مساوی حقوق اور مواقع فراہم کرتی ہے، ملک بھر کے مختلف علاقوں میں اکثر اقلیتی برادری کے ساتھ ناخوشگوار واقعات سامنے آتے ہیں اور اس کی سب سے بڑا وجہ آگاہی ہے ہمارے زیادہ تر لوگ اقلیتی برادری کے حقوق سے ناواقف ہیں، اگر ان سے لوگ واقف ہو جائیں تو بہت ناخوشگوار واقعات کو وقت سے پہلے ہم شکست دے سکتے ہیں۔
مذہبی آزادی
تبسم عدنان نے بتایا کہ مسلمان اور سکھ برادری کے باہمی اشتراک سے تیار کیے جانے والا شمشان گھاٹ مذہبی آزادی اور میانہ روی کا منہ بولتا ثبوت ہے اور اس بات کا عکاس ہے کہ اقلیتی برادری محفوط اور پرامن طریقے سے اپنی مذہبی رسومات ادا کر رہی ہے۔