لائف سٹائلکالم

خواجہ سراء: ایک نقطے نے ہمیں محرم سے مجرم بنا دیا

ارم رحمٰن

ایک نقطے نے ہمیں محرم سے مجرم بنا دیا
ہم دعا لکھتے رہے وہ دغا پڑھتے رہے

مخنث۔۔ ایک ایسا لفظ جو کسی گالی سے کم نہیں!

جینیاتی لحاظ سے انسان میں 46 کرموسومز ہوتے ہیں اور ایک کم یا زیادہ ہو تو انسان عورت یا مرد کی بجائے "مخنث” بن جاتا ہے۔ اس کو عام زبان میں ہیجڑا، خسرا، اور شائستہ انداز میں "خواجہ سرا” کہہ کر پکارا جاتا ہے، انگلش میں ٹرانس جینڈر۔۔۔

کچھ بھی پکاریں کسی بھی زبان میں پکاریں یہ ایک ایسی کمی کا شکار ہوتے ہیں کہ لوگ انھیں مرد عورت کی درجہ بندی میں نہیں رکھتے۔ بہت بحث مباحثے چل رہے ہیں، ان کے لیے ایکٹ بن رہے ہیں پہلے بھی بنا اب کچھ دنوں سے پھر ان کے حقوق کے لیے غلغلہ اٹھا ہوا ہے، ان کی اقسام، ان کے کام اور ان کے پس منظر بیان کیے جا رہے ہیں۔ ان کی ملازمت اور وراثت کے جھگڑے سر اٹھا رہے ہیں اور ان کی عزت نفس کے حوالے سے گفت و شنید زور و شور سے جاری ہے۔

کبھی میڈیکل نقطہء نگاہ پیش کیا جاتا ہے کبھی مذہب کی آڑ میں فتوے۔۔ مجھے صرف یہ جاننا ہے: کیا یہ انسان ہیں؟ کیا دنیا انسان سمجھتی ہے؟ کیا ان کو زندہ رہنے کا حق ہے؟ کیا یہ صرف ناچنے گانے اور بدکاری کے لیے بنے ہیں؟ کیا ان کا دماغ اور جسم عام انسانوں کی طرح محنت مشقت نہیں کر سکتا؟ ڈاکٹر انجینئر بننے کی صلاحیت نہیں ہوتی؟ صرف ایک سیکس سمبل اور گھٹیا سفلی جذبات پہ زور ہے؟ کیا ہر انسان صرف شہوت اور بچے پیدا کرنے کے علاوہ اپنی کوئی پہچان نہیں رکھتا؟

مجھے نہیں پتہ کہ کون سے اعضاء ہیں اور کون سے نہیں۔ مجھے نہیں پتہ کہ یہ مسلمان ہیں یا عیسائی۔ مجھے نہیں پتہ کہ ان کا رجحان مرد بننے کی طرف ہے یا عورت بننے کی طرف۔۔۔

مجھے بس یہ جاننا ہے: کہ جب یہ پیدا ہوتے ہیں تو کیا ان کی کمی میں ان کا قصور ہوتا ہے؟ کیا یہ اپنی مرضی سے ایسا پیدا ہوتے ہیں؟ کیا یہ صرف ناچنے گانے، بھیک مانگنے اور بدفعلی کے لیے بنے ہیں؟ کیا ان سے بدفعلی کرنے والے سب خواجہ سرا ہیں؟ کیا ان کو ناچنے پر مجبور کرنے والے اور ان کا ناچ دیکھنے والے سب خواجہ سرا ہیں؟

اگر سب خواجہ سرا ہیں؛ پیدا کرنے والے، انھیں گھر سے نکالنے والے، بھیک منگوانے والے، نچوانے والے اور ان کا ناچ گانا دیکھنے والے، پھر تو بات ختم!

لیکن

ان سب گھٹیا اور سفاک، مذموم حرکات کے پیچھے وہ لوگ ہیں جو مکمل مرد ہیں یا عورتیں ہیں۔ کسی عورت کے ایسا بچہ جو کسی بھی لحاظ سے مکمل مرد یا عورت نہیں اس کو طعنے دینے والے وہ لوگ ہیں جو مکمل ہیں، ان کو نیچا دکھانے والے، احساس کمتری کا شکار کرنے والے کون ہیں؟ جو مکمل ہیں، ان کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے والے، ان کو دردر کی بھیک مانگنے پہ مجبور کرنے والے کون ہیں۔ جو مکمل ہیں!
پھر

مجھے بتائیے کس کے لیے ایکٹ بننا چاہیے، ان بیچاروں کے لیے؟

یا

ان مکمل انسانوں کے لیے؟

خود سوچیے! اگر ایک مکمل مرد یا عورت اگر دماغی طور پر صحتمند ہو گا تو کیوں کسی مخلوق کو ذلیل و رسواء کرے گا؟ کیوں کسی کو کمتر سمجھے گا؟ ایک مکمل مرد کسی بھی خواجہ سرا سے بدفعلی کیوں کرے گا؟ اسے کس نے حق دیا ہے یہ قبیح فعل انجام دینے کا؟ ناچ گا کے پیسہ کمانا کون سی شرافت ہے؟

میں کسی مذہب کا ذکر اس لیے نہیں کرنا چاہتی کیونکہ خواجہ سرا ہندو مسلم، سکھ عیسائی کسی بھی مذہب کے ہوں، انسان ہیں۔ ان کو وہ سارے حقوق ملنے چاہئیں جو ایک عام انسان کو ملتے ہیں۔

کیا سب مرد ناچتے ہیں؟ کیا سب عورتیں ناچتی ہیں؟ کیا سب عورتیں مرد بھیک مانگتے ہیں؟ کیا والدین اپنی اولاد کو گھر سے نکال کر دوسروں کے حوالے کرتی ہے؟

جب ان سب سوالوں کا جواب نہیں ہے تو پھر خواجہ سرا کو کیوں نکالا جاتا ہے؟ والدین ان کی تربیت کیوں نہیں کرتے؟ ان کو پڑھاتے کیوں نہیں؟ ان کی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے انھیں کوئی ہنر کیوں نہیں سکھاتے؟ اور سب سے بڑھ کر
بدکرداری تو ہر مذہب میں حرام ہے تو ان کے ساتھ غلط کام کرنے کا حق کس نے دیا؟ جو غلط مرد ہیں وہ بھی تو کسی کی اولاد ہیں؟ ان کی تربیت کیوں نہیں کی گئی؟ ان کے والدین نے کیوں اپنے بیٹے کو اچھا انسان نہیں بنایا؟ انھوں نے کیوں نہیں انسانیت کا درس سکھایا؟

اور اگر مسلمان ہیں تو کسی مرد کو تو حق ہی نہیں کسی عورت یا خواجہ سرا پہ دوسری نظر ڈالنے کا پھر یہ کون سا مسلم معاشرہ ہے؟

چلیں! ہم دوسرے ممالک کو چھوڑ کر پاکستان کی بات کرتے ہیں جہاں کی 95 فی صد آبادی مسلمان ہے تو اسلام میں تو اخلاقیات اور انسانیت کا درس ہی دیا جاتا ہے۔ کس وراثت کی بات کرتے ہیں؟ اگر والدین کو پتہ ہے کہ ان کا بچہ مخنث ہے تو اسے اس کے پیروں پہ کھڑا کریں۔ اپنی زندگی میں اسے اپنے باقی بچوں کے برابر جائیداد کا معقول حصہ ”ہبہ” کر دیں، ایسا تو کوئی مسئلہ نہیں جس کا حل نہ نکل سکے اور ابھی تک ایکٹ اور قانون سازی ہی نہیں ہو پا رہی۔

نادرا میں تین خانے بنائیے؟ مرد، عورت، مخنث۔۔ ووٹ کا حق مکمل دیجیے، شناخت پہچان جو خواجہ سرا محسوس کرتا ہے اگر اس کا رجحان عورت کے طور اطوار پر چلنے کا ہے تو اس کا نام اس حساب سے رکھیں۔ اسی طرح اگر مرد کی طرف سوچ جاتی ہے تو مردوں والا نام اور کام بھی! اسے چھوٹی عمر میں عام بچوں کے سکول میں داخل کروائیں پھر ہائی سکول اور کالج، کالج میں اس کے میلان کے مطابق پڑھنے دیں، یونیورسٹی کا تو معیار سب کے لیے یکساں ہے اچھے نمبر ہوں تو میرٹ پہ داخلہ دیں۔

اتنا گنجلک کیوں بنا دیا ہے نظام زندگی کہ اچھے خاصے صحتمند انسان بھیک مانگنے اور ناچنے پر لگے ہیں اور بدکرداری تو سب کے لیے حرام ہے، ممنوع ہے۔ وہ تو گھناؤنا جرم ہے، مرد عورت یا مخنث کوئی بھی کرے وہ قابل سزا عمل ہے۔

بہرحال لمبی بحث مباحثے تقریریں رونے دھونے، دھرنے احتجاج صرف اس لیے ہے کہ لوگ بے حس ہیں۔ جسم مرد یا عورت کا اور ذہن معذوروں کا!

کوئی بھی عاقل بالغ شخص ایک بار ٹھنڈے دل دماغ سے سوچے اور گناہ سے بچنے والا ہو تو وہ کبھی بھی خواجہ سرا کو تنگ نہیں کرے گا، اس کو طعنے نہیں دے گا۔ صحتمند سوچ رکھنے والا کسی خواجہ سرا سے بدکاری کا سوچ بھی نہیں سکتا۔

خدارا۔۔! انسان بن کے سوچیے۔ انسان اور حیوان میں صرف سوچ اور شعور کا ہی فرق ہے ورنہ چیرنے پھاڑنے والے تو درندے ہوتے ہیں، وہ اشرف المخلوقات کے زمرے میں نہیں آتے۔

خواجہ سرا اشرف المخلوقات ہیں کیونکہ وہ سوچ سمجھ سکتے ہیں اور اس وقت ان سے زیادہ مکمل انسانوں کو سوچنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے!

Erum
ارم رحمٰن بنیادی طور پر ایک اچھی شاعرہ اور کہانی نویس، اور اچھا مزاح لکھتی ہیں۔ سیاست سے زیادہ دلچسپی نہیں تاہم سماجی مسائل سے متعلق ان کے مضامین نہ صرف ملکی سطح پر بلکہ پڑوسی ملک سمیت عالمی سطح کے رسائل و جرائد میں بھی شائع ہوتے رہتے ہیں۔
Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button