پشاور میں نشئیوں کی بھرمار: اینٹی نارکوٹکس فورس کی غفلت یا کچھ اور؟
محمد سہیل مونس
پشاور میں واقع کارخانوں مارکیٹ بزنس کے اعتبار سے صوبہ بھر کی مارکیٹوں میں سب سے مصروف ترین مارکیٹ ہے۔ یہاں مختلف انواع و اقسام کی چیزیں مناسب داموں دستیاب ہوتی ہیں۔ ان مارکیٹوں کا رخ مختلف شہروں سے آئے ہوئے لوگ کرتے ہیں جو یہاں سے اپنی پسند کی اشیاء چاہے ملکی ہو یا غیرملکی ارزاں نرخ پے خرید لیتے ہیں۔
یہ مارکیٹ ضلع خیبر اور پشاور کے سنگم پر واقع ہے، انہی مارکیٹوں سے چند قدم کے فاصلے پر ہی مختلف قسم کی منشیات کی دکانیں اب بھی موجود ہیں۔ اگرچہ ضم شدہ اضلاع میں ریاست کی عملداری قائم ہے لیکن اس طرح کی اشیاء پر ابھی بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں نے آنکھیں بند کی ہوئی ہیں۔ اس بات کا واضح ثبوت یہ ہے کہ ان مارکیٹوں کے جنوب کی جانب حیات آباد انڈسٹرئل اسٹیٹ ہے جس کی پہلی سڑک پر ہی اینٹی نارکاٹیکس والوں کا دفتر واقع ہے۔اس دفتر کی پشت پر تقریباً ایک کلومیٹر سے بھی کم فاصلے پر ہیروئن اور آئس وغیرہ کا کاروبار ہوتا ہے لیکن یہ ادارہ اس غلاظت کے خلاف ایکشن لیتا دکھائی نہیں دے رہا۔
اس لعنت کا شکار نہ صرف یہاں کے باسی بن رہے ہیں بلکہ دوردراز علاقوں سے آنے والے بھی تیزی سے متاثر ہو رہے ہیں جن میں ذیادہ تر تعداد پنجاب سے آئے ہوئے افراد کی ہے۔ ان متاثرین میں دوسرے شہروں سے آئے ہوئے افراد میں سے کچھ جوڑوں کی شکل میں بھی پھرتے نظر آتے ہیں جبکہ سب سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ ان میں سے کئی ایک کے ساتھ بچے بھی ہوتے ہیں۔
یہ نشئی افراد بچارے سخت گرمی میں کارخانوں سے نکلتے آلودہ مادوں اور گندے پانی کے نکاس کے لئے بنے نالوں اور ان پر بنائے گئے پلوں کے نیچے شدید گرمی میں ٹولیاں بنا کر بیٹھتے ہیں جبکہ سخت قسم کی سردی میں قصائیوں کے تھڑوں، کنکریٹ کی بڑی بڑی پائپ میں ایک ہی رضائی میں تین تین اور چار چار لپٹے ہوئے نظر آتے ہیں۔
آج سے چند سال قبل یہ افراد بھیک مانگ کر اپنی خوراک اور نشہ کے لئے پیسے اکٹھے کرتے تھے لیکن آج کل رات یا پھر صبح کے اوقات میں اسی علاقے کے کارخانوں کے قیمتی کیبل کاٹ کر، واپڈا کے میٹرز اتار کر، گیس کے پائیپس اکھاڑ کر ، یہاں تک کہ حیات آباد جیسے پوش علاقے کے پارکس کے جنگلے کاٹ کر کباڑ میں بیچ آتے ہیں اور دو تین دن خوب مزے میں گزارتے ہیں۔
اس سے زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ اس علاقے کے کوئی تین چار کلومیٹر کے ریڈئیس میں اس لعنت سے متاثرہ افراد میں بڑے بڑے گھرانوں کے چشم و چراغ بھی شامل ہیں جن کو چرس تو دہلیز پہ مل جاتی تھی جبکہ آج کل زیادہ تر بچے آئس اور دیگر نشہ آور اشیاء کے عادی ہو رہے ہیں۔ اسی ریڈئیس میں نشہ سے متاثرہ افراد کی فلاح و بہبود کے لئے کئی ایک تنظیمیں کام کر رہی ہیں لیکن جب تک اس لعنت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی کوشش نہ کی جائے تو اس سے چھٹکارا مشکل دکھائی دیتا ہے۔
اس لعنت نے اب وبائی شکل اختیار کر لی ہے حتیٰ کہ صوبائی حکومت نے درسگاہوں میں طلباء کے خون کے ٹیسٹس کرنے کا بھی پروگرام بنایا ہے تاکہ نشہ کے عادی طلباء کو یا تو راہ راست پر لایا جائے یا پھر ان کو دیگر طلباء سے دور رکھا جائے تاکہ دوسروں پر اس گندگی کا سایہ تک نہ پڑے۔
اب اگر حالات اس نہج تک پہنچ گئے ہیں کہ درسگاہیں بھی محفوظ نہیں تو سوال تو لازماً بنتا ہے ان اداروں سے جن میں کام کرنے والے ماہانہ کروڑوں روپے کی تنخواہیں اور مراعات لے رہے ہیں اور جن کی کارکردگی صفر ہے۔ یہ عمل اگر سوچے سمجھے منصوبے کے تحت نہیں ہو رہا تو پھر حقائق عوام کے سامنے لائے جائیں کیونکہ نشہ تو نسلوں کو تباہ کر دیتا ہے اور پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ایک مجرمانہ سی چپ سادھ لی ہوئی ہے جس کا مطلب سادہ سا نظر آ رہا ہے کہ قوم کو مہنگائی، جبر، دھونس اور نشہ کی لعنت میں دھت رکھنے کی پالیسی پر گامزن رہے، عوام اپنے مسائل میں الجھے رہیں اور یہ گنے چنے لوگ عوام کی محنت کی کمائی ٹیکسز کی صورت میں ہڑپتے رہیں۔ اور یہ سلسلہ تاقیامت جاری و ساری رہے گا۔
اس تحریر کے توسط سے اعلیٰ حکام سے یہ استدعا ہے کہ نہ صرف یہاں بلکہ ملک بھر میں منشیات کے خلاف ایک مکمل کریک ڈاؤن کیا جائے تاکہ اس لعنت سے ہر بشر محفوظ رہے، دور بدل چکا ہے نہ تو یہ جنرل ضیاء الحق صاحب کا مارشل لائی دور ہے جس میں اس چیز کا دھندہ زور و شور سے ہوتا تھا اور نہ یہ پرویز مشرف صاحب کا دور ہے جس میں انڈسٹرئیل اسٹیٹ حیات آباد کے ہیروئنچیوں کو رات کے وقت اٹھا کر سوات کے پہاڑوں میں ہیلی کاپٹرز سے پھینک کر طالبان ظاہر کیا جاتا تھا۔
یہ ہماری نسلوں کے مستقبل کا سوال ہے؛ اگر ادارے اس طرح کی چیزوں کے تدارک میں سنجیدہ نہیں تو آنے والے وقت میں شاید عوام کا مکمل اعتبار ان پر سے اٹھ جائے اور ملک افراتفری کا شکار ہو جائے۔