لائف سٹائلکالم

پارٹی ایک مگر بیانیے دو، لوگ حیران!

ارشد علی خان

کيا ايسا ہو سکتا ہے کہ آپ کسی سیاسی جماعت سے تعلق رکھتے ہوں مگر آپ کے بیان اور آپ کی صوبائی حکومت کے ترجمان کے بیان میں دن رات یا یوں کہہ لیں زمین آسمان کا فرق ہو یعنی جو بات آپ کہہ رہے ہیں اور جس چیز کا دعوی کر رہے ہیں، آپ کے رفقاء کار اس سے 180 ڈگری پر مختلف بیان دے رہے ہوں؟

جی ہاں! بالکل ایسا ہی کچھ میرے پیارے خیبر پختونخوا میں ہو رہا ہے جہاں عمران خان صاحب کی انقلابی پارٹی پچھلے کچھ کم دس سالوں سے حکومت میں ہے۔

پہلے تو بات کرتے ہیں سابقہ وفاقی وزیر مراد سعید کے جارحانہ انداز میں کئے گئے سوالوں کی، اپنے بیان میں مراد سعید کہتے ہیں کہ اگر حالات ٹھیک تھے تو ہمارے ڈی ایس پی کو گولی کیسے لگی تھی، پورے سوات کے لوگ جانتے ہیں کہ ڈی ایس پی کو گولی کیسے لگی تھی، نام نہ لیتے ہوئے مراد سعید سوال کرتے ہیں کہ آپ کا کیپٹن اور میجر بھی تو ان کی حراست میں تھے، ان کی ویڈیو بھی تو منظرعام پر آئی تھی تو کیا یہ مذاق تھا، کیا یہ پروپیگنڈا تھا؟ لوگوں کو تاوان اور بھتے کے لیے فون کالز آ رہی ہیں۔

مراد سعید ایک بار پھر نام نہ لیتے ہوئے مخاطب ہیں کہ آپ نے کس طرح کہہ دیا پروپیگنڈا ہو رہا ہے، کوئی پروپیگنڈٓا نہیں ہو رہا۔ اس ویڈیو میں مراد سعید نے اور بھی بہت سے سوال اٹھائے ہیں۔

اب آتے ہیں خیبر پختونخوا حکومت کے ترجمان اور وزیراعلی محمود خان کے معاون خصوصی برائے اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف کے بیان کی جانب! اپنے بیان میں بیرسٹر سیف یہ مانتے ہیں کہ صوبے میں امن و امان کی حالت خراب ہے اور خاص طور سے سوات میں کالعدم ٹی ٹی پی نے اپنی کارروائیاں مزید تیز کی ہیں۔

بیرسٹر سیف کے مطابق سوات دھماکے کی ذمہ داری بھی کالعدم ٹی ٹی پی نے قبول کی ہے اور کرم میں سیکیورٹی فورسز پر حملے کی ذمہ داری بھی انہوں نے قبول کی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بیرسٹر سیف کہتے ہیں صوبے میں امن و امان برقرار رکھنا ہماری یعنی صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے۔

اپنے بیان میں بیرسٹر سیف یہ بھی فرماتے ہیں که تحريک طالبان کے ساتھ ریاست پاکستان کے مذاکرات جاری ہیں تاہم ایسا پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ جیسے تحریک طالبان پاکستان کو کسی ڈیل کے نیتجے میں خیبر پختونخوا اور سوات میں آنے اور کارروائیاں کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔

بیرسٹر سیف کا مزید فرمانا ہے کہ ایسی کویی ڈیل نہیں ہوئی، پرتشدد واقعات کے بعد مذاکرات بھی نہیں ہو رہے بس بیک ڈور رابطے بحال ہیں اور ان سے کہا جا رہا ہے کہ پرتشدد واقعات میں کمی کریں تو ہماری طرف سے یعنی سیکیورٹی فورسز کی جانب سے بھی جوابی کارروائی نہیں کی جائے گی۔ بیرسٹر سیف نے اور بھی بہت کچھ فرمایا ہے لیکن خیر!

یہ ایک ایسی پارٹی کے دو رہنماؤں کے بیانات ہیں جو پچھلے دس سالوں سے خیبر پختونخوا میں حکومت کر رہی ہے تاہم دونوں بیانات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔

ایک جانب مراد سعید فرما رہے ہیں کہ سوات میں حالات کی خرابی کا کوئی پروپیگنڈا نہیں ہو رہا بلکہ حالات واقعی خراب ہیں جبکہ دوسری جانب بیرسٹر سیف کا بیان ہے کہ کچھ جماعتیں ایسا پروپیگنڈٓا کر رہی ہیں؟

کیا مراد سعید اور بیرسٹر سیف سمیت تحریک انصاف کی دیگر صوبائی اور وفاقی قیادت میں اختلافات ہیں یا تحریک انصاف جہاں جو بات آپ کو فائدہ دے وہاں وہ بات کی جائے کے سوچے سمجھے منصوبے پر عمل پیرا ہے؟ اگر دوسری بات صحیح ہے تو یہ پختونخوا کے لوگوں کے ساتھ ظلم عظیم ہو گا۔

ایک اور بات جب مراد سعید وفاقی وزیر مواصلات تھے، ان کی پارٹی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان (جس کے کاندھے پر سوار ہو کر وہ اور ان کی پارٹی ملک کے معزز ترین ایوان میں پہنچے تھے) تعلقات خوشگوار تھے تو اُس وقت یہی مراد سعید پارلیمنٹ میں علی وزیر اور محسن ڈاور جیسوں کو چپ کرانے والوں اور ان کی تقریر کے دوران آوازیں کسنے والوں میں سب سے آگے ہوتے تھے تاہم اب جب تحریک انصاف کے لیے وہ اسٹیبلشمنٹ نیوٹرلز (اب تو خان صاحب نے ہینڈلرز کی ایک اور اصطلاح بھی ایجاد کر لی ہے) ہو گئی ہے تو اب مراد سعید کو پختونوں کا اور اس سرزمین کا غم کھائے جا رہا ہے۔

میرے صوبے کے لوگ حیران ہیں (لوگوں میں آپ انصافینز کو شمار مت کیجیے گا کیونکہ وہ ان باتوں پر سوچ کر اپنا دماغ خراب نہیں کرتے) کہ مراد سعید کی باتوں پر یقین کریں یا بیرسٹر سیف کی باتوں پر کیونکہ ایک مرکز میں خان صاحب کے قریب ترین ہے تو دوسرا صوبے میں وزیر اعلی کے قریب ترین۔۔ وَمَا عَلَيْنَا إِلاَّ الْبَلاَغُ

نوٹ: لکھاری کے اپنے خیالات ہیں، ادارے کا ان کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button