خیبر پختونخوا میں بدامنی کے اثرات کیا ہیں؟
محمد فہیم
ایشیاء کے خوبصورت ترین سیاحتی مقام سوات کو ایک بار پھر سے شورش نے گھیر لیا ہے؛ سوات کے شہری امن کیلئے بار بار احتجاجی مظاہر ے کر رہے ہیں تاہم چند روز کے دوران سوات سے اچھی خبریں سامنے نہیں آ رہیں، امن کمیٹی کے رکن پر ریمورٹ کنٹرول بم حملہ میں 8 افراد کے شہید ہونے کے بعد ایک اور امن کمیٹی کے رکن کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنا دیا گیا جبکہ بھتہ خوری بھی اس وقت عروج پر ہے۔
پشاور سے لے کر سوات ڈی آئی خان سے لے کر ایبٹ آباد تک تمام شہروں میں بھتہ خوروں نے پنجے گاڑ لئے ہیں جس کی روک تھام کیلئے ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔ بھتہ خوری کے حوالے سے محکمہ انسداد دہشتگردی کے پاس 39 کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں جبکہ خاموشی سے بھتہ خوروں کو ادائیگی کرنے والوں کی تعداد اس سے کئی گنا زیادہ ہے۔
محکمہ انسداد دہشت گردی کے ڈیٹا کے مطابق خیبر پختونخوا میں 2022 میں اب تک بھتہ خوری کی 39 شکایات رپورٹ کی گئی ہیں؛ بھتہ خوری میں نامزد 171 ملزمان میں 96 ملزمان تاحال گرفتار نہیں ہو سکے ہیں جبکہ محکمہ نے مختلف کاروائیوں میں 76 بھتہ خوروں کو گرفتار کیا ہے۔ محکمہ انسداد دہشتگردی (سی ٹی ڈی) کی مختلف کاروائیوں کے دوران 3 ملزمان ہلاک ہوئے جبکہ گرفتار ملزمان میں 3 کو سزائیں سنائی گئی ہیں۔
سال 2022 میں بھتہ خوری میں استعمال ہونے والی 60 سمیں بلاک کی گئیں؛ بھتہ خوری میں لوکل سِموں کے ساتھ ساتھ 142 افغان سمیں بھی استعمال ہوئیں۔ واضح رہے کہ مذکورہ کیسز رپورٹ کئے گئے ہیں جبکہ شہریوں کی جانب سے خاموشی سے بھتہ خوروں کو ادائیگی کرنے والوں کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔
بدامنی اور منتخب نمائندے
سوات میں بدامنی پہلی مرتبہ سامنے نہیں آئی۔ اس سے قبل جب سوات میں طالبان کا دور تھا تو اس وقت خیبر پختونخوا میں عوامی نیشنل پارٹی کی حکومت تھی جس نے سب سے زیادہ شہید پیش کئے؛ منتخب نمائندوں سے لے کر یونین کونسل سطح کے پارٹی عہدیدار تک کو نشانہ بنایا گیا تاہم اس بار حالات قدرے مختلف ہیں۔
سینئر صحافی اور انگریزی روزنامے ”دی نیوز انٹرنیشنل” کے پشاور میں سربراہ مشتاق یوسفزئی کہتے ہیں کہ سوات میں طالبان کے سامنے آنے، دہشت گردی کے پے در پے واقعات اور بھتہ خوروں کی جانب سے فون کالز کے بعد سوات سے ارکان اسمبلی اپنے اہل خانہ کے ساتھ پشاور اور اسلام آباد منتقل ہو گئے ہیں، سوات کے علاقے مٹہ میں چند ہفتے قبل طالبان کے پولیس کے ساتھ مقابلے اور سکیورٹی اہلکاروں کے جرگے کے نتیجے میں رہائی کے بعد سوات کے حالات مسلسل خرابی کی جانب بڑھ رہے ہیں، ریمورٹ کنٹرول بم حملے میں 8 افراد کے جاں بحق ہونے، دیر سے منتخب رکن اسمبلی ملک لیاقت پر حملے اور ٹارگٹ کلنگ کے بعد بھتہ خوری کی شکایات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جس کے باعث شہریوں میں خوف و ہراس بڑھ گیا ہے۔
مشتاق یوسفزئی کے مطابق سوات سے تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی کے تمام ارکان اسمبلی اپنے اہل خانہ سمیت پشاور اور اسلام آباد میں رہائش پذیر ہیں۔
بدامنی کا خوف اور بے یارومددگار شہری
خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں مسلسل شورش بڑھنے اور بدامنی کے خوف کے پیش نظر شہری نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہو گئے۔ متاثرہ علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی ماہر نفسیات کے پاس بحالی کیلئے علاج کی غرض سے آمد بھی شروع ہو گئی ہے۔
ماہر نفسیات ڈاکٹر سعدیہ شفیق کہتی ہیں کہ طالبان کے دوبارہ سامنے آنے اور ان کے خوف نے شہریوں کو نفسیاتی طور پر شدید متاثر کیا ہے؛ اب تک تین اضلاع کرم، جنوبی وزیرستان اور سوات کے شہری نفسیاتی طور پر دباﺅ میں آنے کے بعد علاج کی غرض سے ان سے رابطہ کر چکے ہیں، اگرچہ اس مرتبہ یہ خوف زیادہ لوگوں کو متاثر نہیں کرے گا لیکن اس سے شہری متاثر ضرور ہوں گے، 2010 میں سوات اور قبائلی اضلاع کے جو حالات تھے اس وقت یہ انجانا خوف تھا تاہم اب یہ خوف واضح ہے جس کیلئے بڑی تعداد میں شہری تیار بھی ہیں لیکن جو نفسیاتی طور پر کمزور ہیں وہ اس وقت توجہ طلب ہیں۔
ڈاکٹر سعدیہ کے مطابق اب تک نفسیاتی طور پر متاثر ہونے والوں میں بڑی تعداد خواتین کی ہے جبکہ متاثرین کی عمر 20 سے 40 سال کے درمیان ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اگرچہ یہ تعداد اتنی زیادہ نہیں ہے تاہم خوف کا اثر بہت زیادہ ہے جس کی وجہ سے شہری خودکشی اور راست اقدام اٹھانے کا سوچ رہے ہیں، انہیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ ان کی زندگی کا اب کوئی مقصد نہیں ہے اس لئے وہ ختم کر دینی چاہئے۔
بدامنی اور وینٹی لیٹر پر پڑی معیشت کا احوال
سوات میں سیاحت کی صنعت سے وابستہ افراد کا شمار لاکھوں میں ہے۔ سوات میں 12 سال قبل جب حالات خراب ہوئے تو جو لوگ لاکھوں اور کروڑوں میں کھیلتے تھے وہ دو وقت کی روٹی کیلئے بھی محتاج ہو گئے۔ شہید بے نظیر وومن یونیورسٹی پشاور کے شعبہ معاشیات کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر فریحہ سمیع اس حوالے سے کہتی ہیں کہ 2010 میں بدامنی کے باعث صرف تین سالوں کے دوران 60 ارب ڈالرز سے زائد کا نقصان ہوا تھا جس کی بحالی کیلئے عملی طور پر کوئی اقدام نظر نہیں آ سکا، اس بار یہ معیشت پہلے ہی بدامنی، کورونا، 2010 اور اب 2022 کے سیلاب سے متاثرہ ہے اور یہ معیشت بڑے پیمانے پر تباہی کی متحمل نہیں ہے۔
ڈاکٹر فریحہ سمیع کے مطابق اس معیشت کو ان تمام چیلنجز کے ساتھ ساتھ سیاسی عدم استحکام کے خطرے کا بھی سامنا ہے؛ امن و امان کے مسئلے کے ساتھ ساتھ سیاسی استحکام کی بھی انتہائی ضرورت ہے لیکن یہ وقت اس لئے زیادہ نازک ہو گیا ہے کہ تمام چیلنجز ایک ساتھ سامنے آ گئے ہیں جس سے نمٹنے کیلئے کوئی حکمت عملی نہیں ہے، اگر سوات اور قبائلی علاقوں میں حالات ایسے ہی کشیدہ رہے تو غیرملکی سرمایہ کار بھی ملک چھوڑ جائیں گے اور مقامی سرمایہ کار بھی یہاں سے کوچ کر جائیں گے جس کا براہ راست نقصان مقامی آبادی اور بعد ازاں پورے ملک کو پہنچے گا۔