لمپی سکن وائرس: پشاور کے قصائی بے روزگار ہونے لگے
انور خان
"دن بھر گوشت سے مکھیاں اڑاتے ہیں، گوشت لینا تو درکنار لمپی اسکن وائرس آنے کے بعد لوگ ہم سے بھی دور بھاگتے ہیں، دن میں 50 کلو گوشت بیچتے تھے اب 20 کلو بک جائے تو شکر ادا کرتے ہیں۔” نوتھیہ بازار میں گاہک کے انتظار میں بیٹھے قصائی ساجد نے گزشتہ دو ماہ میں کاروبار کی ابتر صورتحال کی رودار بیان کرنا شروع کی؛ کہا کہ پہلے لوگ گوشت رکھنے کیلئے فون کرتے تھے، اب دن بھر بازار آنے والوں کے چہرے دیکھ دیکھ تھک جاتے ہیں، لوگ لمپی اسکن وائرس سے اتنے ڈر گئے ہیں کہ ذبح خانوں سے تصدیق شدہ جانور کا گوشت کھانے سے بھی کتراتے ہیں، "پہلے روزانہ ایک جانور ذبح کرتے تھے اب دو تین قصائی مل کر ایک جانور ذبح کرتے ہیں۔”
پشاور میں صرف نوتھیہ بازار نہیں بلکہ شہر کے دیگر میٹ (گوشت) مارکیٹوں کی صورتحال بھی اس جیسی ہے۔ رنگ روڈ پر قائم شہر کے سب سے بڑے نجی مذبح خانہ میں یومیہ 600 سے زائد جانور زبح ہوتے تھے جو کہ گزشتہ تین ماہ میں کم ہو کر 100 تک آ گئے ہیں۔ ذبیحہ خانہ کے مالک اضغر خان نے بتایا کہ کاروبار 90 فیصد ختم ہو گیا ہے، غیرمصدقہ خبروں اور سوشل میڈیا پر ہونے والا پروپیگنڈ گمراہ کن ہے، "یہاں پر 5 ہزار سے زائد لوگ کام کرتے ہیں، منڈی ہے، بیوپاری ہیں ، قصائی ہیں، صفائی والے ہیں، سب کے سب متاثر ہو گئے ہیں، یہاں ہر وقت محکمہ لائیو سٹاک کے ڈاکٹرز موجود ہوتے ہیں، جانور کو طبعی معائنے کے بعد ذبح کرتے ہیں۔”
شہر میں سرکاری مذبح خانہ میں بھی قصائی بے روزگار ہو گئے ہیں۔ لنڈے سڑک پر قائم مذبح خانہ میں پہلے روزانہ 60 سے 70 جانور ذبح ہوتے تھے اب یہاں بمشکل 10 جانور لائے جاتے ہیں۔
بیف ایسوسی ایشن کے صدر مقصود خان قریشی کے مطابق گوشت کے کاروبار سے وابستہ جو لوگ ہزاروں میں کماتے تھے اب وہ مشکل سے سات، آٹھ سو کما رہے ہیں، حکومت نے آگاہی مہم نہ چلائی تو یہ ہزاروں لوگ مستقل بے روزگار ہو جائیں گے، ”ہم کئی بار متعلقہ اداروں سے ملے ہیں، حکومتی نمائدوں سے ملاقاتیں کیں، لائیو سٹاک اور طبعی ماہرین کی یقین دہانیوں کے باوجود لوگ گوشت کھانے سے ڈرتے ہیں، بڑے پیمانے مہم چلانا ہو گی تاکہ لوگ مطمئن ہو سکیں کہ یہ جانوروں کی بیماری ہے اور انسانوں کو نہیں لگتی، منفی پروپیگنڈے کا تدارک لازمی ہے۔”
ڈسٹرک ڈائریکٹر لائیو سٹاک پشاور کامران فرید نے ٹی این این کو بتایا کہ لمپی اسکن جانوروں سے انسانوں کو منتقل ہونے والی بیماری نہیں ہے، ابھی تک ایسا کوئی کیس سامنے نہیں آیا جس میں لمپی سکن وائرس انسانوں کو لگ گیا ہو۔
انہوں نے بتایا کہ اس بیماری کا پھیلاؤ زیادہ ہے لیکن وہ کوشش کر رہے ہیں کہ جلد از جلد جانوروں کی ویکسینیشن کریں تاکہ نقصان کم سے کم ہو، پشاور میں اس وقت 80 ہزار سے زائد جانوروں کو ویکسن لگ چکی ہیں۔
کامران کے مطابق یہ بیماری دیگر جانوروں کو بھی نہیں لگتی، یہ صرف گائے، بیل اور بچھڑوں کو لگتی ہے، پشاور میں ان جانوروں کی تعداد تین لاکھ 20 ہزار جبکہ پاکستان میں ان کی تعداد چار کروڑ 30 لاکھ ہے۔
لمپی سکن بیماری کے حوالے سے محکمہ صحت خیبر پختونخوا نے بھی کوئی الرٹ جاری نہیں کیا۔ ڈپٹی ڈائریکٹر پبلک ہیلتھ ڈاکٹر صائمہ طاہر کے مطابق ایسے کوئی شواہد موجود نہیں جن سے یہ ثابت ہو سکے کہ لمپی سکن بیماری انسانوں کو لگ سکتی ہے نہ اس حوالے سے کوئی کریڈبل تحقیق سامنے آئی ہے، یہ صرف جانورں کی بیماری ہے پورے ملک میں کوئی ایسا کیس بھی سامنے نہیں آیا، عالمی ادارہ صحت کا بھی یہ کہنا ہے کہ وائرس انسانوں کو منتقل نہیں ہو رہا۔
ڈاکٹر صائمہ کا کہنا تھا کہ لمپی سکن سے متاثرہ جانور کا گوشت اور دودھ قابل استعمال ہے، لوگوں کو ان دو چیزوں کو غذا میں شامل کرنا چاہیے خصوصاً بچوں اور حاملہ خواتین کیلئے دودھ اور گوشت کھانا بہت ضروری ہوتا ہے۔
مذبح خانہ میں گزشتہ بیس سال سے کام کرنے والے قصائی حیات کا کہنا تھا کہ لوگ ویسے ڈر گئے ہیں، بیمار اور صحت مند جانور میں زمین اور آسمان کا فرق ہوتا ہے، جو جانور لمپی سکن سے اتنا متاثرہ ہوا ہو کہ اسے مجبوراً ذبح بھی کرنا پڑے تو اس کے گوشت میں کالے دھبے ہوتے ہیں، رنگ سے پتہ چلتا ہے، بدقسمتی یہ ہے کہ لوگوں نے صحت مند جانور کا گوشت بھی کھانا چھوڑ دیا ہے۔
گزشتہ تین ماہ کے دوران خیبر پختونخوا میں لمپی اسکن بیماری کے 46 ہزار 343 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جن میں سے 2 ہزار تین سو سے زائد جانور ہلاک ہوئے ہیں، سب سے زیادہ کیسز جنوبی اضلاع ڈی آئی خان، ٹانک، لکی مروت، کرم، اورکزئی اور دیگر علاقوں میں سامنے آئے ہیں۔ پاکستان میں لمپی سکن بیماری کا پہلا کیس رواں سال اپریل میں سندھ سے رپورٹ ہوا۔ مجموعی طور پر پورے ملک سے اب تک لمپی سکن کے 1 لاکھ 80 ہزار سے زائد کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں۔
ورلڈ آرگنائزیشن فار اینیمل ہیلتھ کی ویب سائٹ پر دستیاب ایک تحقیقی مقالے کے مطابق لمپی اسکن جانورں میں پھیلنے والی جلد کی بیماری ہے۔ یہ بیماری سب سے پہلے 1929 میں افریقی ملک زیمبیا کے جانوروں میں تشخیص ہوئی تھی۔ 1943 میں بوٹسوانا اور اس کے بعد جنوبی افریقہ تک 80 لاکھ جانور اس وائرس سے متاثر ہوئے جس سے معیشت بری طرح متاثر ہوئی تھی۔
1957 میں جانوروں کی یہ بیماری کینیا، 1970 میں سوڈان، 1974 میں نائجیریا تک پھیلنے لگی۔ 1988 اور 1989 کے درمیان لمپی سکن وائرس کے کیسز پہلی مرتبہ براعظم افریقہ سے باہر مصر اور اسرائیل میں رپورٹ ہوئے۔
ایشیاء کے جانوروں میں لمپی سکن بیماری کی وباء 2019 میں سب سے پہلے بنگلہ دیش میں پھیلی اس کے بعد چین، ہندوستان، نیپال، بھوٹان، ویتنام اور ہانگ کانگ تک یہ وائرس پھیل گیا۔