سیاستکالم

عمران خان: انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے پاکستان!

ثمنیہ ناہید ایڈوکیٹ

قومی تعمیر و قومی ترقی کا راز ریاستی اداروں کی مضبوطی میں ہے۔ جب ریاستی ادارے مضبوط ہوں تو کوئی بھی ریاست ترقی کر سکتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کسی ملک کی تعیمیر و ترقی میں اُس ملک کے سیاستدانوں کا کردار بھی ایک اہم عنصر ہے۔ سیاستدانوں کا کردار سماجی ہم آہنگی، معاشی خوشحالی اور جمہوریت کے تسلسل اور بقا کے حوالے سے نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ اور انہی سیاستدانوں کے مثبت رویوں اور بہتر کارکردگی سے ملک ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہو سکتا ہے۔ اسی لئے تمام جماعتوں کے سیاستدانوں کو ملک کی بہتری میں اپنا حصہ ڈالنا چاہیے کیونکہ ریاستی ادارے مضبوط ہوں گے تو ملک بھی ترقی کرے گا۔

اداروں پر عوام کا اعتماد ہی انہیں فعال بناتا ہے۔ لیکن افسوس پاکستان میں سیاست دان ریاستی اداروں کو بدنام کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ پاک فوج ریاست پاکستان کا ایک منظم ادارہ ہے اور اپنی پیشہ ورانہ کارکردگی کی وجہ سے ہر قسم کی کرپشن سے پاک ہے۔ پاک فوج کا کردار بہادری، شجاعت، بے داغ اور شاندار عسکری خدمات سے عیاں ہے۔ پاک فوج کی اعلی قیادت کو سیاست میں ملوث کرنے کی کوششوں اور آرمی چیف کی تعنیاتی کے طریقہ کار کو متنازعہ بنانا پاکستان کے مفاد میں ہے نہ ہی افواج پاکستان کے مفاد میں ہے۔ سیاستدانوں کے غیرذمہ دارانہ بیانات سے ملک کے امیج پر بُرا اثر پڑتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے عمران خان ہی نہیں ہر سیاسی لیڈر کرسی اقتدار سے اترتے ہی اپنے غیرذمہ دارانہ بیانات کی وجہ سے پاک فوج جیسے منظم ادارے کو متنازعہ بنانے کی کوشش کرتا ہے۔

فصیل آباد جلسہ میں عمران خان کے بیان سے آرمی میں شدید غم وغصہ پایا گیا ہے جبکہ ایسے نازک وقت میں سینئر قیادت کو متنازعہ بنانا انتہائی افسوسناک ہے۔ سیاسی جلسے میں فوج کے بارے میں ہتک آمیز اور غیرذمہ دارانہ بیانات قوم کے لئے تکلیف دہ بات ہے۔ جبکہ آرمی چیف کی تعنیاتی کا طریقہ کار آئین میں واضح ہے۔ تنازعات کو ہوا دینے والے سینئر سیاستدانوں کا عمل انتہائی افسوسناک ہے۔ کوئی بھی محب وطن شہری اس کو تسلیم نہیں کرتا۔ ایسے بیانات ملک دشمنوں کو خوش کرنے کی کوشش اور فوج جیسے منظم ادارے کی توہین ہے۔ بے داغ حُب الوطنی اور شاندار اہلیت کی حامل سنیر قیادت کو متنازعہ بنانے کی کوشش ریاست اور ادارے کے مفاد میں بہتر نہیں ہے۔

ایسے بیانات پاکستان کی جگ ہنسائی کا سبب بنتے ہیں جبکہ پاکستانی قوم اس وقت سیلاب کی تباہ کاریوں سے نبردآزما ہے۔ مگر اس قوم کے بےحس سیاستدان ان مشکل ترین اور تباہ کن حالات میں بھی قوم کو متحد کرنے کی بجائے جلسہ جلسہ کھیل رہے ہیں۔ یہ وقت سیاست سے اوپر سوچنے کا ہے۔ اصل سیاست تو دُکھی انسانیت کی خدمت کرنا ہے لیکن ان کی بے حسی ظاہر کر رہی ہے کہ ان کے نزدیک مصیبت زدہ لوگوں کی کوئی قدر نہیں۔ اگر بے حسی کا یہی عالم رہا تو خدانخواستہ یہ ملک بھی ایک روز قصہ پارینہ بن جائے گا۔

جنگ، دہشتگردی، زلزلہ، طوفان یا سیلاب میں پاکستانی فوج ہمہ وقت تیار رہتی ہے۔ مگر سیاستدانوں کے بیانات کے باجود ہماری افواج نے عوام کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر اتحاد کے ذریعے حالیہ سیلاب اور اس طرح کی تمام مشکلات کا مقابلہ کیا۔ ہر روز یہ ادارہ عوام کی سلامتی اور تحفظ کے لئے جانیں قربان کر رہا ہے۔ سیلاب زدہ عوام کی بحالی کا کام ہی عوامی خدمت ہے جس کے لئے پوری قوم پاک فوج کے جوانوں کو دعائیں دے رہی ہے۔

بلوچستان میں بجلی و گیس اور مواصلاتی نظام کی بحالی میں بھی فوج کا اہم کردار رہا ہے لیکن ہمارے حکومتی عناصر بالخصوص اس صوبے کے حکمران سیلابی علاقوں سے تاحال لاپتہ ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کو سیلاب زدہ علاقوں کی مدد وہاں پہنچ کر کرنی چاہئے نہ کہ بذریعہ ہیلی کاپٹر نظارہ کرنا چاہئے تھا۔ چاہئے تو یہ تھا کہ تمام سیاسی لیڈروں کو سیلابی علاقوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے مگر افسوس ہمارے حکومتی ہیلی کاپٹر ایسے حالات میں بھی عمران خان کو اسلام آباد سے مختلف شہروں میں ہونے والے جلسوں تک لے جاتے اور پھر واپس اسلام آباد پہنچاتے رہے جبکہ آرمی ہیلی کاپٹر عوامی خدمت کے لئے ہمہ وقت موجود رہتے ہیں۔

اس کے باوجود عمران خان نام نہاد آزادی مشن کی خاطر شہر شہر جلسہ کر کے آرمی کو متنازعہ بنانے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ ان کی نظر میں آزادی مشن سیلاب زدگان کی خدمت سے بھی بڑھ کر ہے۔ ان کے اس بیان اور عمل کو عوامی حلقوں میں ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا۔ اس انوکھے لاڈلے نے اس سیلابی آفت کے اس نازک موقع پر بھی عوام کو اکٹھے نہ ہونا دیا۔ اُن کی نظر میں سیلاب میں دو تین کروڑ جبکہ غلامی میں 22 کروڑ عوام پھنسے ہوئے ہیں۔ سیلاب تو آتے رہتے ہیں۔ عوام کی قسمت میں تو مرنا ہی لکھا ہے۔ ڈوبنے والے کے ساتھ کیا ڈوبنا۔

اب سوچنے کی ذمہ داری عوام کی ہے۔ عوام سوچ بچار کریں کہ انہیں سیلاب کے عذاب سے نجات پہلے چاہیے یا پھر جلسہ آزادی سے؟ عمران خان نے تو تین ارب امداد اکٹھی کر لی مگر یہ امداد سیلاب زدگان تک کیسے پہنچے گی؟

جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ دنیا کے دوسرے ممالک میں ایسے حالات میں تمام سیاسی جماعتیں قوم کو مشکل میں دیکھ کر یکجا ہو جاتیں، بھلا وہ سیاست ہی کیا جو برسوں کے جبری مسلط کردہ سیاسی و معاشی جھوٹ، جبر اور جعلسازیوں کے خلاف خاموش اور بے ترتیب رہے۔

ثمینہ ناہید ایک وکیل، ایک سماجی کارکن اور ایک وژنری کالم نگار ہونے کے ساتھ ساتھ تھانہ گلبہار ڈی آر سی کی پہلی خاتون ممبر اور وومن سٹوڈنٹ ویلفیئر سوسائٹی کی چیئر پرسن بھی ہیں۔ پشاور کے نسبتاً پسماندہ گاؤں ہزارخوانی سے تعلق رکھتی ہیں۔
Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button