80 سال کی عمر میں کامیابی یہ ہے کہ آپ کو گھر کا راستہ آتا ہو!
سدرہ ایان
کہتے ہیں کہ 80 سال کی عمر میں کامیابی یہ ہے کہ آپ کو گھر جانے کا راستہ آتا ہو۔ یہ اس لیے کہا گیا ہے کہ انسان جتنا بوڑھا ہوتا جاتا ہے اس کا بچپنا واپس آتا جاتا ہے، اور اس کی سمجھ بوجھ کی صلاحیت ختم ہوتی جاتی ہے۔ تب اگر ہمارے ایسے بزرگ گھر سے نکلنے لگیں تو انھیں کاغذ کے ایک ٹکڑے پر گھر کا پتہ اور موبائل نمبر لکھ کر دینا نہایت ضروری ہوتا ہے۔
ہوا کچھ یوں کہ کل پرسوں میں گھر جا رہی تھی تو جس رکشے میں، میں بیٹھ گئی اس رکشے میں ایک ادھیڑ عمر خاتون بیٹھی ہوئی تھی جس نے مجھے بتایا کہ وہ فوتگی کی دعا کے لیے جا رہی ہے، راستے میں رکشہ خراب ہو گیا تو ہم اس سے اتر گئے، تب میں نے دیکھا کہ وہ خاتون بہت ہی ضعیف تھی، صحیح طرح سے چل بھی نہیں سکتی تھی اور ٹھیک سے دیکھ بھی نہیں سکتی تھی۔ پھر جب ہم دوسرے رکشے میں بیٹھ گئے تو میں سوچنے لگی کہ ابھی تو راستے میں میرا گھر ہے، میں اُتر جاؤں گی تو یہ بزرگ خاتون اکیلی کیسے جائے گی کیونکہ وہ جہاں جا رہی تھی وہ جگہ اسے ٹھیک سے معلوم بھی نہیں تھی تو میں نے فیصلہ کیا کہ میں انھیں گھر تک چھوڑ آتی ہوں۔
جب میں اپنے گھر والے چوک تک پہنچی تو معمول کے مطابق وہاں کئی رکشے کھڑے تھے۔ میں نے ان میں سے ایک سے بات کی جو تقریباً روز مجھے گھر تک ڈراپ کرتا ہے۔ میں نے کہا کہ میں گھر جاؤں گی لیکن اس سے پہلے اس خاتون کو اس جگہ لے جانا ہے جہاں یہ جانا چاہتی ہے۔ میں نے اسے رکشے میں بٹھایا تو وہ کبھی ایک جگہ بتاتی تھی کبھی دوسری، تو اس نے جو جو جگہ بتائی ہم اسے وہیں لے کر گئے لیکن وہاں کسی کے گھر میں بھی فوتگی نہیں ہوئی تھی لیکن میرے لاکھ سمجھانے کے باوجود بھی وہ گھر جانے کو تیار نہیں ہوئی، اس کے چہرے پر میں نے عجیب سا خوف دیکھا کہ اگر میں ان سے کہوں گی کہ مجھے گھر نہیں ملا تو وہ یہ بات نہیں مانیں گے۔ وہ کہہ رہی تھی کہ میں اپنے بیٹے سے کیا کہوں گی، وہ بہت غصّہ ہو گا کہ تم وہاں گئی ہی نہیں ہو تو میں نے اس سے کہا کہ اگر آپ کے بیٹے کو اتنی ہی فکر ہے تو خود کیوں تمھارے ساتھ نہیں آیا، اس نے آپ کو اس تپتی دوپہر میں گھر سے اکیلے کیسے جانے دیا جس پر وہ رو پڑی لیکن مجھے اس کی بات سمجھ نہیں آئی۔
میں نے پوچھا کہ وہ گھر سے اکیلی کیوں نکلی، نہ اس کے پاس شناختی کارڈ تھا، نہ موبائل نہ کسی کے موبائل کا نمبر نہ اسے جگہ کا نام معلوم تھا جہاں وہ جا رہی تھی، کہنے لگی کہ میں یہی اُتر جاتی ہوں شائد میں کسی اپنے کو دیکھ لوں وہ مجھے فوتگی والے گھر لے جائے گا۔
جب میں نے دیکھا کہ وہ اپنی من مانی کر رہی ہے اور یہی کر کے وہ مطمئن ہو گی تو میں نے اسے وہیں ڈراپ کیا اور اسی چوک کے رکشے والے کو پیسے دے کر سمجھایا کہ اس پر نظر رکھے، وہ کہیں اور نہ چلی جائے، میں نے کہا تھوڑی دیر انتظار کریں، یہ زیادہ دیر کھڑی نہیں ہو پائے گی، یہ تھک کر مطمئن ہو جائے تو رکشے میں بٹھا کر ان کے گھر تک چھوڑ آنا۔ اور اس خاتون کو بھی سمجھایا کہ اگر کوئی نہ ملے آپ کو تو آپ گھر چلی جائیں اور فوتگی والے گھر کا پتہ اپنے ساتھ لکھ کر گھر سے نکلیں۔
اس نے دعائیں دیں اور وہیں سڑک کے کنارے کھڑی ہو گئی اور میں گھر کی طرف روانہ ہوئی۔ اسی رکشے میں، میں تب تک اسے دیکھتی رہی جب تک وہ نظروں سے اوجھل نہیں ہوئی۔ میں یہی سوچتی رہی کہ اگر وہ میری اپنی ماں ہوتی تو کیا میں اسے ایسے کھڑے رہنے دیتی؟ میں کافی وقت اس کے ساتھ رہی جہاں اس نے بولا میں اسے لے کر گئی لیکن اس سے زیادہ وقت میں اسے نہیں دے سکتی تھی، کیا کرتی میں بھی لڑکی ہوں مجھے بھی گھر جا کے جواب دینا تھا کہ کیوں دیر لگا دی، مجھے گھر جا کر یہ بھی سننا تھا کہ کیوں کرتی ہو تم یہ سب، ہر کسی کا ٹھیکہ تم نے لے رکھا ہے کیا!
لیکن پھر بھی میں یہی سوچتی رہی کہ مجھے اسے اس کے گھر تک چھوڑ دینا چاہیے تھا اور ان کے گھر والوں سے بات بھی کر لینی چاہیے تھی لیکن جب میں نے بیگ کھول کر دیکھا تو میرے پاس پیسوں کی اتنی گنجائش نہیں تھی کہ اس کے گھر تک اس کے ساتھ جاتی بھی اور پھر واپس اپنے گھر آتی۔ لیکن میں اس بیٹے کے بارے میں سوچ رہی تھی کہ کیوں اور کیسے؟ کیسے ایک بیٹا اپنی بوڑھی ماں کو تپتی دھوپ میں گھر سے نکلنے دیتا ہے بغیر یہ سوچے کہ وہ ٹھیک سے دیکھ نہیں سکتی، اسے راستے کا نہیں پتہ، اس کے پاس موبائل، کسی کا نمبر، کچھ بھی نہیں ہے۔ اگر اس کا خدا نہ کرے کوئی ایکسیڈنٹ ہوا، اگر کوئی اسے کہیں اور لے کر گیا تو کیا ہو گا؟ ایک بیٹا اتنا غیرذمہ دار کیسے ہو سکتا ہے؟
بچہ جب چھوٹا ہوتا ہے ماں کبھی اسے گھر سے باہر نکلنے نہیں دیتی پھر بیٹا ایک بوڑھی ماں کو کیسے ایسے جانے دے سکتا ہے؟
رکشے والے نے کہا کہ پچھلے دِنوں بھی ایسی ہی کوئی بزرگ خاتون تھی اور اسے تمھاری بڑی بہن لے کر جا رہی تھی، یہ سن کر مجھے ہنسی آئی کہ کہیں اب یہ بھی نہ کہے کہ تم بہنوں نے سب کا ٹھیکہ لے رکھا ہے کیاَ اس نے کہا کہ اس پورے گاؤں میں صرف آپ لوگ اتنی پرواہ کرتے ہیں۔ میں سوچنے لگی کہ میں یہ نہ تو اپنے لیے کر رہی ہوں نہ اں کے لیے، یہ میں صرف اپنی ماں کے لیے کرتی ہوں کہ کل کو اگر میری ماں کو یہ دن خدا نخواستہ دیکھنا پڑا تو میرا کلیجہ پھٹ جائے گا اس لیے میں راستے میں کسی اور کی ماں کو بھی ایسے نہیں چھوڑ سکتی۔
اس واقعے کا آج دوسرا تیسرا دن ہے، میں ابھی تک کسی کام سے باہر نہیں گئی کہ اس رکشے والے سے پوچھ لوں، مجھے نہیں پتہ کہ وہ گھر خیریت سے پہنچ گئی ہو گی یا نہیں لیکن میں یہ کہنا چاہتی ہوں کہ خدا کے لیے اپنے والدین کو گھر سے اکیلے باہر جانے نہ دیں، یا خود ان کے ساتھ جائیں یا ان کو موبائل لے کر دیں، موبائل نمبر اور پتہ لکھ کر دیں جہاں وہ جا رہے ہوں۔
والدین، ماں اور باپ بہت ہی قیمتی سرمایہ ہے، دنیا کی کوئی دولت آپ کو آپکے والدین لوٹا نہیں سکتے۔ کوئی شک نہیں کہ ہم سب اس دنیا میں بہت کم وقت کے لیے آئے ہیں، سب کو جانا ہے، کسی بھی وقت بُلاوا آ سکتا ہے، لہذا جب تک وہ ہیں تو ان کی حفاظت کریں کیونکہ اس کے بعد شائد آپ کو کبھی ان کا خیال رکھنے کا موقع نہ ملے۔