سیلاب 2022: پاکستانی معیشت کو تقریباً 10 بلین ڈالرز کا نقصان پہنچنے کا اندیشہ
حمیرا علیم
پاکستانی معیشت کو سیلاب کی وجہ سے تقریباً دس بلین ڈالرز کا نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے، بارشوں کی وجہ سے تقریباً 1200 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، 55 لاکھ گھر بہہ گئے ہیں۔
ساؤتھ ایشیاء میں ریکارڈ کیے جانے والے درجہ حرارت کے مطابق یہ موسمیاتی آفت ہے۔ پاکستان کی فیڈرل منسٹر فار کلائمیٹ چینج شیریں رحمان نے ایک انٹرویو میں کہا تھا: "بہت سی تحصلیں یوں دکھائی دیتی ہیں جیسے وہ سمندر کا حصہ ہوں، ہمارے ہیلی کاپٹر کو راشن پھینکنے کے لیے خشک جگہ نہیں مل رہی ہے، پاکستان میں تقریباً 4 کروڑ لوگ سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں اور پہلی بار نیوی سے بھی کام لیا گیا ہے۔”
فنانس منسٹر مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا: "ہم فوری طور پہ یہ تخمینہ نہیں لگا سکتے کہ معیشت کے مختلف سیکٹرز کس حد تک متاثر ہوئے ہیں مگر نقصان دس بلین ڈالر سے زائد ہو سکتا ہے۔”
یہ قدرتی آفت ایک ایسے وقت میں آئی ہے جب کہ پاکستان ایشیاء کی تیزی سے بڑھتی ہوئی شرح مہنگائی کا سامنا کر رہا ہے اور کوشش کر رہا ہے کہ ڈالر کی کمی پر قابو پایا جا سکے، آئی ایم ایف سے چھ بلین ڈالر کی قسط ملنے کا امکان ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے بین الاقوامی ڈونرز سے مدد کی اپیل کی ہے۔
اس موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں انٹر گورنمنٹل پینل آن کلائمیٹ چینج کے سائنسدانوں نے 2021 میں وارننگ دے دی تھی کہ موسمیاتی تبدیلیوں کا اثر ہمالیہ کے گلیشئیرز پہ بھی ہو رہا ہے اور یہ پہلے سے کہیں زیادہ تیزی سے پگھل رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ سیلاب آیا ہے۔
اس سال مون سون کی بارشوں کی وجہ سے 2010 سے کہیں زیادہ سیلاب آیا ہے۔ جے ایس کیپٹل لمٹیڈ کی رپورٹ کے مطابق 5.4 بلین ڈالر آئی ایم ایف، اقوام متحدہ، ورلڈ بینک اور ایشین ڈویلپمینٹ بینک کی طرف سے مل چکے ہیں لیکن اس قدرتی آفت کی وجہ سے پاکستان تمام آمدن پہ 15 فیصد سرچارج لگانے پر مجبور ہے تاکہ متاثرہ انڈسٹریز کے ریلیف اور بحالی کے لیے پیسہ جمع کیا جا سکے۔
ماہرین کے مطابق سیلابی ریلے نے لاکھوں ایکڑ فارمز اور کپاس کے کھیت تباہ کر دیئے ہیں اور یہ ایک ایسے ملک کے لیے بڑا دھچکا ہے جس کی زراعت ملکی معیشت کا چوتھائی حصہ ہو۔ سندھ، پنجاب اور بلوچستان کی حالت بہت بری ہے جس کی وجہ سے پچھلے سال کی بہ نسبت معاشی ترقی میں 3 سے 4 فیصد کمی آ سکتی ہے۔