سپر وومن مس قرۃالعین وزیر: پاکستان ان جیسے نیک لوگوں کی بدولت ہی قائم ہے!
حمیرا علیم
نوشہرہ کی ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر مس قرۃالعین وزیر کو جب بتایا گیا کہ نوشہرہ میں اگلے آٹھ گھنٹوں میں پانی داخل ہونے والا ہے تو نہ تو انہوں نے ہمارے ارباب اختیار و اقتدار کی طرح ایک وارننگ لیٹر ٹائپ کروایا اور اسے متعلقہ محکموں کو بھیج دیا نہ ہی مساجد میں اعلان کروا کے اپنی ذمہ داری پوری کر دی بلکہ یہ سپر وومن خود شہر کے مختلف علاقوں میں گئیں اور لوگوں کو کہا کہ ضروری سامان پیک کر کے محفوظ مقام پہ پہنچیں۔ کئی لوگ تو فوراً نکل پڑے جب کہ بعض نے ان سے بدتمیزی کی جس پہ مس قرۃالعین نے واقعی ہی کمشنر بن کر دکھا دیا۔
انہوں نے ایک چھڑی اٹھائی، پولیس کو ساتھ لیا اور انکاری خاندانوں کے دروازے کھٹکھٹا کر انہیں گھروں سے زبردستی باہر نکالا، پولیس کی مدد سے سامان نکالا اور جو بھی ٹرانسپورٹ ملی ریڑھی، ٹرالی اور ٹرک، اس پہ لادا اور راتوں رات سارا علاقہ خالی کروا لیا، اور لوگوں کو محفوظ مقام پہ پہنچا دیا۔ رات دو سے تین کے درمیان پانی شہر میں داخل ہوا لیکن چونکہ شہر پہلے ہی خالی کروا لیا گیا تھا اس لیے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
کاش! ہمارے وزیراعظم سے لے کر نچلے عملے تک سب اتنی ہی ایمانداری اور فرض شناسی کا مظاہرہ کریں۔ انہوں نے بتایا: "میں ایک خاتون ہوں لیکن مجھے یہاں مردوں کی طرح کام کرنا پڑتا ہے، اب تو یہ فرق بھی ختم ہے، ہم نے لوگوں کو محفوظ مقام پہ منتقل کرنا ہے اس لیے مجھے ڈنڈا اٹھانا پڑا، پانی میں گھر گھر جا کر لوگوں کو نکالنا اس لیے مشکل تھا کہ لوگ سمجھتے نہیں کہ کیا ہو سکتا ہے اس لیے میں خود وہاں گئی، اس سلسلے میں مجھے محکمہ انہار اور پی ڈی ایم اے کی معاونت حاصل تھی، اللہ تعالٰی نے ہمیں کامیابی دی ہے۔”
خیبر پختون خوا کے علاقہ میں کسی خاتون افسر کا اس طرح ایکشن لینا کم ہی دکھائی دیتا ہے اس لیے جب ان سے پوچھا گیا کہ ایک خاتون ہونے کے ناطے یہ کتنا مشکل ہے تو ان کا کہنا تھا: "مجھے اس فیلڈ میں بارہ سال ہو چکے ہیں اور اب میرے لیے مرد عورت کا فرق ختم ہو چکا ہے، اب ہم سب مل کر کام کرتے ہیں یہ نہیں کہ میں خاتون ہوں، ہاں! یہ درست ہے کہ مجھے میرے عملے کی پوری حمایت حاصل ہوتی ہے اور میرے ساتھ پولیس اور دیگر عملہ بھی موجود ہوتا ہے۔”
مس قرۃالعین نے جمعہ، ہفتہ اور اتوار کے دن اپنے عملے کے ساتھ لوگوں کو دریا آباد کے کنارے پہ منتقل کیا۔ اس خبر سے تین سبق ملے؛ پہلا یہ کہ آج بھی ایسے دیانتدار لوگ موجود ہیں جو اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر اپنی ذمہ داریوں سے بااحسن طریقے سے عہدہ برآء ہو رہے ہیں اور شاید پاکستان ان جیسے نیک لوگوں کی بدولت ہی قائم ہے۔
دوسرا یہ کہ واقعی جب تک انسان خود اپنی حالت نہ بدلے خدا بھی اس کی حالت نہیں بدلتا۔
اور تیسرا یہ کہ ہماری عوام ”مولا بخش” کے بغیر چلتی ہی نہیں۔ ایک طرف تو رونا ہے کہ حکمران، متعلقہ محکمے اور فورسز متاثرین سیلاب کی مدد نہیں کر رہیں اور دوسری طرف حال یہ ہے کہ ایک ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر آپ کو خود آ کر درخواست کر رہی ہیں کہ محفوظ مقام پہ چلیے مگر آپ ان کے ساتھ ایسے بدتمیزی کر رہے ہیں جیسے اس میں ان کا اپنا کوئی مفاد ہو۔ سچ ہے انسان کسی حال میں خوش نہیں ہوتا۔ ایسے لوگوں کو ہمارے حکمران ہی سوٹ کرتے ہیں جنہیں ان کی رتی برابر پرواہ نہیں۔
مختلف ذرائع ابلاغ کے مطابق اڑھائی، ساڑھے تین یا چار کروڑ لوگ سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں۔ اتنی بڑی تعداد کے لیے رہائش، کھانے اور دیگر ضروریات زندگی کی فراہمی آسان نہیں ہے۔ مختلف این جی اوز، افراد، فورسز اور حکومتی ادارے ان لوگوں کی مدد کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن پانی، خراب موسم اور سڑکوں اور پلوں کی توڑ پھوڑ ان امدادی کارروائیوں میں رکاوٹ ہیں۔
کاش کہ حکمران بھی مس قرۃالعین کی طرح پیشگی احتیاطی تدابیر کریں اور ڈیمز نہریں بنائیں، دریاؤں، نہروں اور ڈیمز کی صفائی کروائیں اور اپنی انا، ہٹ دھرمی اور ذات سے ہٹ کر غریب عوام کا بھی سوچ لیں تو شاید اتنے بڑے پیمانے پہ تباہی ہو نہ ہی لوگ بے گھر و بے سروسامان ہوں۔
دنیا بھر میں سیلاب آتا ہے مگر دنیا پاکستان کی طرح آنکھیں بند کر کے خطرے کے ٹلنے کا انتظار کرنے کی بجائے احتیاطی تدابیر کرتی ہے۔ تدبیر کر کے تقدیر پہ راضی برضا ہونے والے ہی کامیاب ہوتے ہیں۔