لائف سٹائلکالم

سیلاب کی تباہ کاریاں، سیاست دانوں کی بے حسی اور ہماری کوتاہیاں

ارشد علی خان

کس کس بات کا ماتم کیا جائے، وطن عزیز میں ہر کام ایک نرالے انداز میں انجام دینے کی روایت ہے جو آخر میں تباہی لاتا ہے۔

سب سے پہلے بات کرتے ہیں سیلابوں کی، کیا سیلاب قدرتی آفت ہے؟ میرے خیال میں نہیں۔ کیونکہ قدرتی آفت وہ ہوتی ہے جو ناگہانی سر پر پہنچ جائے جیسے زلزلہ! زلزلے کی پیشن گویی نہیں کی جا سکتی مگر سیلاب تو ہر سال آتے ہیں، سیلاب سے پہلے کچھ ادارے زیادہ بارشوں اور سیلابوں کی پیشن گوئی کر کے اپنے فرائض سے بری الذمہ ہو جاتے ہیں اس لیے میں سیلاب کو قدرتی آفت کم اور حکومتوں، سیاستدانوں اور مقتدر طبقوں کی نااہلی زیادہ سمجھتا ہوں۔ اگر وہ سیاست دان اور مقتدر طبقہ، جو اس ملک کے اصل مالک ہیں، بروقت ڈیمز اور بند تعمیر کر دیتے تو جو ہر سال ملک کے طول و عرض میں تباہی ہوتی ہے وہ نہ ہوتی او جو ہم ہر سال فقیروں کی طرح جھولی پھیلا کر اقوام عالم سے مدد مانگنے نکل پڑتے ہیں، یہ نہ کرنا پڑتا مگر کیا کریں کہ اس مقتدر طبقے کی کمائی کا اصل ذریعہ ہی تباہ حال عوام کے نام پر لی گئی بیرونی امداد ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق ملک کے مختلف اضلاغ میں حالیہ سیلاب کے نتیجے میں جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 982 ہو گئی ہے جس میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ گزشتہ روز سوات میں 15 افراد جان کی بازی ہار گئے۔

اب آتے ہیں سیاستدانوں کی بے حسی کی جانب! اس میں کوئی تفریق نہیں سوائے ایک جماعت اسلامی اور الخدمت فاونڈیشن کے، خیبر پختونخوا حکومت کے ترجمان بیرسٹر سیف کے مطابق سیلاب او زندگی کا لگا بندھا ساتھ ہے اور سیلاب سے تباہی زندگی کا حصہ ہے، سیلاب تو آتے رہتے ہیں تاہم سیاسی سرگرمیاں بند نہیں کرنی چاہئیں کیونکہ عمران خان انقلاب لا رہا ہے اور اس وجہ سے عمران خان کے جلسے ملتوی نہیں کر سکتے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ سوات اور کالام میں سیلاب کے حوالے سے سوشل میڈیا پر جو بھی ویڈیوز زیر گردش ہیں وہ سب پچھلے سیلاب کی ہیں یعنی انہوں نے کالام اور سوات میں سیلاب کے شدید ہونے کا ہی سرے سے انکار کیا۔

دوسری جانب وزیراعلی محمود خان اپنے پارٹی چیئرمین کے ہمراہ ڈی آئی خان اور ٹانک کے سیلاب متاثرہ علاقوں کے دورے پر نکل پڑے جہاں ان کے پروٹوکول نے سیلاب متاثرین کی امدادی کارروائیوں کو مزید ناممکن بنا دیا۔ میاں شہباز شریف بھی متواتر سیلاب متاثرہ علاقوں کے دورے کر رہے ہیں جن کا خاطر خواہ فائدہ نظر نہیں آ رہا بلکہ جہاں یہ جاتے ہیں وہاں کی انتظامیہ بڑے لوگوں کی آؤ بھگت میں لگ جاتی ہے اور ریلیف آپریشن متاثر ہوتا ہے۔

شہباز شریف کی ایک ویڈیو نظر سے گزری جس میں موصوف ہیلی کاپٹر سے اپنے ہاتھوں سے راشن کے تھیلے متاثرین کی جانب پھینک رہے ہیں۔ دوسری جانب خان صاحب کو ڈی آئی خان اور ٹانک کے متاثرین کے لیے بالکل نئی قناتوں کے کیمپ کا دورہ کروایا گیا, ظاہر ہے انتظامیہ نے ان کی آنکھوں میں دھول جھونکی جس کے بعد میڈیا کے ساتھ گفتگو میں عمران خان اور محمود خان دونوں نے ریلیف آپریشن کی تعریف کی۔

سندھ کی ایک ویڈیو میں آصف علی زرداری کے بہنوئی اور سینیٹر، فریال تالپور کے شوہر نامدار ایم این اے میر منور تالپور سیلاب متاثرین میں بڑے تکبر کے ساتھ 50،50 روپے بانٹ رہے ہیں، متاثرین کی حالت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ پچاس روپے لینے کے لیے بھی منتیں کر رہے ہیں، ہمارے سیاستدانوں کو کم از کم ایسے مشکل وقت میں تو اپنی ڈرامہ بازیاں بند کر دینی چاہئیں۔

حالیہ سیلاب کے حوالے سے کچھ ویڈیوز سوشل میڈیا پر نظر سے گزریں، سوشل میڈیا صارفین کے مطابق کوہستان وادی دبیر کے پانچ نوجوان پانچ گھنٹے تک دریا کے بیچوں و بیچ کسی حکومتی امداد اور ریسکیو کے منتظر موت و حیات کی کشمکش میں رہے مگر نہ تو صوبائی حکومت کا ہیلی کاپٹر دستیاب ہو سکا اور نہ ہی ان کا جو کرکٹ گراونڈ سکھانے کے لیے بھی ہیلی کاپٹر استعمال کر چکے ہیں، صرف ایک نوجوان کی جان بچائی جا سکی، باقی زندگیاں بپھرے دریا کی نذر ہو گئیں۔

سوشل میڈیا پر افغانستان میں حالیہ بارشوں اور سیلاب میں ہیلی کاپٹروں سے ایک ایک بندے کے ریسکیو کرنے کی ویڈیوز وائرل ہوئی ہیں، سوشل میڈیا صارفین پوچھ رہے ہیں کیا ہم اس ملک سے بھی گئے گزرے ہیں جو پچھلے چالیس سال سے مختلف ممالک کی جنگوں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے اور بمشکل ہی سکھ کا سانس لے پایا ہے۔

اور اب بات کرتے ہیں بطور قوم اپنی کوتاہیوں کی! نہ صرف ہم بلکہ اعلی ترقی یافتہ قومیں بھی موسمیاتی تبدیلی کا باعث بنی ہیں، یورپ اور امریکہ میں خشک سالی کی کیفیت ہے تو ہمارے ہاں بے وقت کی بارشوں نے سیلابی صورتحال اختیار کر کے تباہی مچائی ہوئی ہے۔

ہم نے بطور قوم یہ تہیہ کیا ہوا ہے کہ ہر وہ کام کریں گے جس سے قدرتی ماحول میں مداخلت ہو، ہم نے جنگلوں کے جنگل کاٹ دیئے ہیں اور ان پر ہاؤسنگ سوسائٹیز بنا رہے ہیں، گزشتہ کچھ عرصے میں جنگلوں کو آگ لگانے کے واقعات میں بھی بے انتہا اضافہ دیکھنے میں آیا جس سے بچھے کچھے جنگل بھی تباہ ہو گئے۔

اگر خیبر پختونخوا کی بات کروں تو یہاں پر ہر دو چار کلومیٹر کے بعد کاشت کی زمینوں پر ہاؤسنگ پراجیکٹس چل رہے ہیں، ہم ایک زرعی ملک ہوتے ہوئے بھی غذائی ضروریات باہر سے منگواتے ہیں تاہم جس تیزی سے کاشت کی زمینوں پر ہاوسنگ سوسائٹیز بن رہی ہے تو اگلے چند سالوں میں ہم غذائی قلت کا شکار ہوں گے۔

حالیہ سیلاب میں اگر دیکھا جائے تو کالام کا سب سے بڑا ہوٹل ہنی مون آدھا دریا کے اندر تعمیر شدہ تھا۔ اسی طرح دیگر ہوٹلز او عمارتوں کا بھی یہی حال تھا۔ دوسری جانب سوات میں بھی دریا کی حدود میں ہوٹلز اور ریسٹورنٹس تعمیر کرنے کی اجازت دی گئی۔ الزام لگایا جا رہا ہے کہ دریایے سوات کے اطراف تعمیرات کے لیے این او سیز 80 کروڑ روپے کے عوض جاری کیے گئے۔ اس الزام کی غیرجانبداری اور سختی سے تحقیقات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ملوث افسران کو قرار واقعی سزا دی جا سکے۔

اگر ہم اپنی تعمیرات ندی نالوں او دریاؤں کی حدود چھوڑ کر کریں تو زیادہ نقصان کا اندیشنہ ختم کیا جا سکتا ہے اور اگر ہم اپنی حدود میں بھی کچھ زمین چھوڑ کر تعمیرات کریں تو نقصان انتہائی کم کیا جاسکتا ہے۔ دوسری اہم بات دریاؤں کے کنارے ہمیں جنگل اور بڑے درخت اگانا ہوں گے تب جا کر ہم موسمیاتی تبدیلی کے تباہ کن اثرات کو کم سے کم رکھنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button