لائف سٹائل

لنڈیکوتل کے فنکاروں کو کلچر ڈپارٹمنٹ سے شکایت کیا ہے؟

محراب شاہ آفریدی

قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے گلوکاروں کو کلچر ڈیپارٹمنٹ اور حکومت سے یہ گلہ ہے کہ مقامی گلوکار جو قدرتی طور پر بہترین آواز اور انداز میں غزل اور گیت گاتے ہیں اور لوگوں کو انٹرٹینمنٹ کرتے ہیں، مقامی گلوکار علاقے کے امن کی نشانی سمجھے جاتے ہیں، عام تقریبات کے علاوہ سرکاری تقریبات سمیت قومی دن کے موقع پر بھی مقامی گلوکار اور فن کار اپنے ہنر اور ٹیلنٹ سے لوگوں کو لطف اندوز کراتے ہیں لیکن اس کے باوجود ان کے ساتھ وہ تعاون نہیں کیا جاتا جس کے وہ حقدار ہیں بلکہ ان کو مسلسل نظرانداز کر کے حوصلہ افزائی کے بجائے ان کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔

خیال رہے کہ لنڈیکوتل میں پہلے رفیق شنواری سمیت چند مخصوص گلوکار ہی تھے جو مقامی شعراء کی غزلیں اور گیت گاتے تھے لیکن اب تعلیم یافتہ نوجوانان بھی میدان میں نکلے ہیں جو اپنی بہترین آواز سے لوگوں کو تفریح مہیا کرتے ہیں۔

گزشتہ روز لنڈیکوتل کے پہاڑی علاقہ ہیدرے کنڈاو میں لنڈیکوتل کے صحافیوں کی جانب سے منعقد کردہ ایک پروگرام میں مقامی گلوکاروں کے ہمراہ اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کے بعد مقامی رباب نواز احمدلی شینواری نے بتایا کہ وہ بچپن سے رباب بجانے کا شوق رکھتے تھے، ”بے حد شوق کی وجہ سے رباب بجانا سیکھا جس کا باقاعدہ کوئی کورس نہیں کیا اور نہ ہی کوئی استاد ہے لیکن رباب بجانے والوں کو دیکھ اور سن کر یہ فن سیکھ لیا۔”

انہوں نے کہا کہ 1993 سے اب تک وہ رباب بجاتے چلے آ رہے ہیں، اسی سے وہ کماتے ہیں اور گھر کا خرچہ پورا کرتے ہیں، پروگرام میں جانے کے لئے کبھی بھی انہوں نے پیسوں کی ڈیمانڈ نہیں کی اور نہ پروگرام کرنے کے لئے ریٹ مقرر کیا ہے لیکن لوگ ان کے ساتھ مالی تعاون کرتے ہیں، ”چونکہ قبائلی معاشرہ ہے، یہاں کے لوگ فن کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے اگرچہ جہاں بھی پروگرام کرتے لرتے ہیں تو ہزاروں کی تعداد میں لوگ آتے ہیں اور پھر فرمائشیں بھی کرتے ہیں اور خوب لطف اندوز ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی معاشرے میں وہ عزت نہیں ملتی۔”

احمدلی نے بتایا کہ جب وہ رباب سیکھنے کے عمل سے گزر رہے تھے تو بہت سخت مشکلات تھیں، گھر والوں اور مشران ان کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے تھے لیکن اس کے باجود شوق کی خاطر سیکھ لیا۔

اسی طرح طبلہ نواز موویز آفریدی نے بتایا کہ وہ آرٹسٹ ہیں اور ساتھ طبلہ بجانے کا شوق بھی رکھتے ہیں جس کا انہوں نے باقاعدہ کورس کیا، اب چوری چھپے پروگرامات میں طبلا بجاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جب وہ ہاسٹل میں تھے تو طبلہ سیکھنے کا موقع ملا، اب علاقے میں کچھ نوجوانان ہیں جو سیکھنا چاہتے ہیں لیکن وہ انہیں بتاتے ہیں کہ یہاں لوگ ان کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے اس لئے کوئی اور ہنر سیکھ لیں۔

مقامی گلوکاروں وزیر رحمان شینواری، عنایت اللہ عرف نڈو نے بتایا کہ کئی سالوں سے وہ گا رہے ہیں، لوگ کہتے ہیں کہ قدرت نے آپ کو بہترین آوازیں دی ہیں، مقامی شعراء سمیت بڑے شعراء جیسے حمزہ بابا، خوشحال خان خٹک کی غزلیں گاتے ہیں، مختلف غزلیں اور گیت یاد کئے ہیں جو وہ مختلف پروگرامات میں گا لیتے ہیں لیکن اس کے ساتھ نئی غزل اور گیت بھی گاتے ہیں جو شعراء ان کو محفلوں میں گانے کے لئے دیتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ ان کا شوق ہے اس سے وہ کماتے نہیں بلکہ کمانے کے لئے وہ محنت مزدوری کرتے ہیں، ”کلچر ڈیپارٹمنٹ کو پتہ بھی نہیں کہ یہاں پر بھی ٹیلنٹ سے مالا مال گلوکار موجود ہیں، کلچر ڈیپارٹمنٹ کو چاہیے کہ وہ قبائلی علاقوں میں اس طرح پروگرامات منعقد کر کے مقامی گلوکاروں کو مواقع دے اور ان کی حوصلہ افزائی کرے۔”

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button