بنوں کینٹ میں جناح فیملی پارک کو کیوں بند کیا گیا؟
غلام اکبرمروت
بنوں میں فیملی پارک کا مسئلہ اس وقت شدت اختیار کر گیا جب بنوں کی تاریخ کا سب سے بڑا عوامی مظاہرہ ہوا۔ بنوں کینٹ میں واقع فیملی پارک کو بند کرانے کیلئے دینی مدارس کے ہزاروں طلبا، علما اور عوام نے شدید احتجاج کیا۔
گزشتہ روز ہونے والے مظاہرے میں مظاہرین نے فیملی پارک میں توڑ پھوڑ کرنے کی بھی کوشش کی لیکن علما کی مداخلت پر انہیں روک لیا گیا۔ ہزاروں مظاہرین بنوں کینٹ میں قائم فیملی پارک کے فوری خاتمے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے فیملی پارک انتظامیہ کے ساتھ ساتھ بنوں کی ضلعی انتظامیہ کے خلاف بھی شدید نعرے بازی کی جبکہ افواج پاکستان زندہ باد کے نعرے لگائے۔
بنوں میں سینکڑوں سال قدیم "مسجد حافظ جی” میں علما کرام کی کال پر احتجاجی اجلاس طلب کیا گیا تھا جہاں پر ضلع بھر سے دینی مدارس کے ہزاروں طلبا، علما اور عوام امڈ آئے۔ علما کمیٹی کے سربراہ مولانا عبدالغفار کی صدارت میں اجلاس کے بعد احتجاجی جلوس نکالا گیا جو شہر کے مختلف بازاروں اور فیملی پارک سے ہوتا ہوا پریس کلب کے باہر اختتام پذیر ہوا۔ اس موقع پر تحصیل چیئرمین بنوں عرفان درانی، مولانا اعزاز اللہ حقانی، مولانا احمد اللہ حقانی، مولانا مفتی عظمت اللہ، ملک راحت علی خان، جماعت اسلامی کے ضلعی امیر محمد اجمل خان اور دیگر رہنما موجود تھے۔
مذہبی ٹچ
مولانا عبدالغفار نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ "بنوں کی ایک عالمہ خاتون کو خواب میں پیغمبر اسلام حضرت محمدؐ کی زیارت نصیب ہوئی جس میں انہیں کہا گیا کہ فیملی پارک کے خلاف جلوس کا میں خود فیملی پارک کے سامنے استقبال کروں گا۔” یقیناً اس سے ثابت ہوا کہ اللہ کے رسولؐ بھی اس فیملی پارک کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ فیملی پارک کی وجہ سے بنوں جیسے مہذب ضلع کی عزت داؤ پر لگا دی گئی ہے، فیملی پارک کے باعث فحاشی و بے حیائی عروج کو پہنچ رہی ہے، تفریحی مقامات پر خواتین کی آمد بالکل تسلیم نہیں کرتے، بنوں میں ہر صورت فیملی پارک بند کرنا ہو گا، ہمارا احتجاج پرامن ہے ہم تشدد کا راستہ اختیار نہیں کریں گے۔
ضلعی انتظامیہ بے بس
فیملی پارک کے خاتمے کے حوالے سے ضلعی انتظامیہ نے بے بسی کا اظہار کیا ہے اور اس سلسلے میں بریگیڈ کمانڈر سے رابطہ کرنے کا کہا گیا ہے۔ اس سلسلے میں ٹی این این نے ڈپٹی کمشنر عون حیدر گوندل سے رابطہ کیا لیکن انہوں نے کسی قسم کا موقف دینے سے معذوری ظاہر کی۔
فیملی پارک کے خلاف احتجاج کرنے والوں سے خطاب میں مقررین نے کہا کہ چونکہ افواج پاکستان ہمارے محافظ ہیں اور جن کی ہم انتہائی قدر کرتے ہیں ہمیں امید ہے کہ وہ اس فیملی پارک کو فی الفور ختم کریں گے۔
علما کا کہنا تھا کہ ہم پرتشدد نہیں بلکہ پرامن احتجاج کر رہے ہیں اور اس تحریک کو کسی صورت ناکام نہیں ہونے دیں گے۔ انہوں نے دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ اگر فیملی پارک ختم نہ کیا گیا تو بنوں کی عوام دوسرے مرحلے کیلئے تیار رہیں اور ایک گھنٹہ کی مختصر کال پر گھروں سے نکلیں۔ اس موقع پر ضلعی انتظامیہ کے فسران اور پولیس کی بھاری نفری موجود تھی۔
اس سے قبل یوم آزادی کے موقع پر نقیب اللہ اباخیل نامی ایک نوجوان نے لکی مروت کے ایک نجی پارک میں برقعہ پوش خواتین کو نہ صرف جھولا (کشتی) جھولنے سے منع کیا بلکہ جذبات میں آ کر گالیاں دیتے ہوئے انہیں جھولے سے بھی اتار دیا تھا۔ میڈیا میں خبریں چلنے کے بعد لکی مروت کی ضلعی انتظامیہ نے اس کے خلاف ایف آئی آر درج کر کے پابند سلاسل کر دیا۔
اسی دن بنوں میں فیملی پارک میں برقعہ پوش خواتین سادہ رسی کے جھولوں پر جھولنے لگیں اور اس کی ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی جس کے خلاف پہلے بنوں کے چار پانچ نوجوان میدان میں آئے اور اس کے بعد جمعیت علماء اسلام بھرپور قوت کے ساتھ میدان میں نکلی۔
امیر جماعت اسلامی پروفیسر ابراہیم خان کیا کہتے ہیں؟
امیر جماعت اسلامی خیبر پختونخوا پروفیسر محمد ابراہیم خان نے کہا ہے کہ بنوں کینٹ میں بنوں کی خواتین کیلئے فیملی پارک سے زیادہ ضروری بنوں کے عوام کیلئے عرصہ دراز سے استعمال ہونے والے راستوں کا کھولنا اور شوال گیٹ پر فوجی جوانوں کا ذلت آمیز رویہ ختم کرنا ہے تاکہ عوام کو کینٹ ایریا میں واقع سرکاری دفاتر تک آمدورفت میں مشکلات اور پریشانی نہ ہو، اس وقت کینٹ تک جانے والے تمام راستے رکاوٹیں اور دیواریں کھڑی کر کے بند کر دیئے گئے ہیں، صرف ایک راستہ شوال گیٹ جو فوجی ایریا نہیں بلکہ سول گیٹ ہے، اس کو کھلا چھوڑ دیا گیا ہے جس پر روزانہ بنوں کے غیور عوام کے ساتھ ذلت آمیز رویہ اپنایا جاتا ہے اور ان کی توہین و تذلیل کی جاتی ہے، ”اسٹیشن کمانڈر سول دفاتر کے راستے سے فوجی جوانوں کے ذریعے چیکنگ کا کام ختم کر کے عوام کو مزید ذلیل و رسوا نہ کریں۔”
بنوں کینٹ میں فیملی پارک بالآخر بند کر دیا گیا
پاک فوج اور بنوں کے علما اور آئمہ کرام پر مشتمل کمیٹی کے مذاکرات کامیاب ہوئے اور بنوں کینٹ میں قائم جناح فیملی پارک مستقل طور پر بند کر دیا گیا۔ تحفظ آئمہ کرام و علما کرام کمیٹی کے سرپرست اعلی امیر مولانا عبدالغفار قریشی نے بنوں پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ان کی 32 رکنی کمیٹی نے بنوں کینٹ حکام سے ملاقات کی جس میں انہوں نے فیملی پارک کو مستقل طور پر بند کرنے کا فیصلہ کیا جس پر ہم کینٹ حکام کے مشکور ہیں۔
جناح فیملی پارک سے جناح لیڈی پارک تک
بنوں کے سینئر صحافی رحمت اللہ شباب کہتے ہیں کہ پچھلے سال بھی فیملی پارک کا مسئلہ سوشل میڈیا پر آیا تھا تو اسٹیشن کمانڈر بنوں نے پارک میں پشتون روایات کو مدنظر رکھتے ہوئے مردوں کے داخلے پر پابندی لگا کر اس کو فیملی پارک کی بجائے لیڈی پارک میں تبدیل کیا تھا اور اس طرح اس معاملے پر احتجاج کرنے والے خاموش ہو گئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ صوبے میں تحریک انصاف کی حکومت ہے جبکہ مرکز میں پی ڈی ایم کی حکومت ہے اس لئے جے یو آئی بھی اپنے آپ کو حکومت سمجھتی ہے، یوم آزادی کے موقع پر بنوں کی مقامی خواتین پارک میں آنے اور جے یو آئی کے احتجاج کے بعد یہ مسئلہ ایک بار پھر زندہ کیا گیا۔
سیننئر صحافی نے بتایا کہ جناح فیملی پارک کی بندش تحریک کے پیچھے جمیعت علما اسلام کا کردار اب کھل کر سامنے آ گیا ہے جو دراصل بنوں اور لکی مروت میں جے یو آئی کی گرتے ہوئے گراف کو اٹھانے اور وزیرستان کی تحصیل شیواہ میں دریافت ہونے والے گیس کی پنجاب منتقلی کے خلاف شروع کئے گئے تحریکوں کو دبانے کا ایک منصوبہ ہے تاکہ بنوں اور لکی مروت میں گیس دو تحریکوں سے عوام کی توجہ ہٹائی جا سکے، جے یو آئی نے فیملی پارک کے معاملے میں بیک وقت پشتون اور اسلامی کارڈاستعمال کرنا شروع کیا ہے، انہوں نے ضلعی کابینہ کے اجلاس میں موقف اختیار کیا تھا کہ پارک میں آنے والی تمام خواتین کا تعلق تحریک انصاف سے تھا اور یہ علاقہ میں فحاشی پھیلانا چاہتے ہیں، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بنوں اور لکی مروت جیسے باپردہ شہروں میں بیک وقت ایک جیسی صورتحال کیسے پیدا ہوئی؟ یہی سوال عام شہریوں کے علاوہ بعض علماء کی طرف سے بھی اٹھایا جا رہا ہے۔
سابق ممبر ڈسٹرکٹ کونسل ملک ذوہیب خان جھنڈوخیل نے ٹی این این سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم بھی بے حیائی کے خلاف ہیں لیکن ہمارا معاشرہ مردوں کا معاشرہ کہلایا جاتا ہے، ہمارے کلچر میں خواتین کیلئے سخت پابندیاں ہیں جبکہ مردوں کو کھلی چھوٹ ہے، مردجو بھی برائی کرے اس کے خلاف کوئی احتجاج نہیں کرتا خواتین کے خلاف ہمارے جذبات جلد بھڑکتے ہیں لیکن جھنڈوخیل کرم پل کے مقام پر ہر جمعہ کے دن سینکڑوں کی تعداد میں مرد آتے ہیں جن میں پچاس فیصد مردوں کے ساتھ خوبرو لڑکے ہوتے ہیں جنہوں نے خواتین سے بھی زیادہ خوبصورت میک اپ کیا ہوتا ہے، اس بے حیائی کے خلاف ڈی پی او بنوں کو تحریری درخواستیں دی ہیں، سوشل میڈیا پر آواز اٹھائی لیکن لواطت پر کسی کی غیرت نہیں جاگتی نہ ہی ان کے مذہبی جذبات بھڑکتے ہیں، جب خواتین کے حقوق کی بات ہوتی ہے تو بنوں کے عام لوگ بالخصوص مدارس والے نکل آتے ہیں، جنوبی اضلاع میں چونکہ مذہبی رنگ زیادہ ہے اس لئے اگر کوئی بھی خواتین کیلئے آواز اٹھائے تو اس کے خلاف فوری فتوی جاری ہونے کا خطرہ ہوتاہے، ”مجھے حیرت ہوتی ہے کہ یونیورسٹیوں میں مخلوط نظام تعلیم سے بے حیائی نہیں ہوتی لیکن صرف عید اور جشن آزادی کے موقع پر دو چار دن خواتین کے نکلنے سے بے حیائی پھیلتی ہے، افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ کبھی بھی یہ سیاسی اور مذہبی لوگ خواتین کو جائیداد میں حصہ نہ دینے کے خلاف بات نہیں کرتے نہ خود حصہ دیتے ہیں اور نہ احتجاج کرتے ہیں کہ خواتین کو اسلام نے جائیداد میں حصہ دیا ہے لہذا بنوں کے غیور عوام بھی بہنوں اور بیٹیوں کو جائیداد میں حصہ دیں۔”
بنوں سے تعلق رکھنے والے میکینیکل انجینئر انتظار خان نے ٹی این این سے بات چیت کرتے ہوئے کہاکہ ہم سب بنوں بلکہ جنوبی اضلاع کے پشتون پردہ سسٹم کو اچھا سمجھتے ہیں اور یہ ہماری روایات میں شامل ہے، جو لوگ فیملی پارک کے خلاف ہیں وہ کبھی معاشرے میں موجود دیگر برائیوں کے خلاف بھی آواز اٹھائیں، اگر خواتین کے پردے کی بات کی جائے تو نادرا، بینظیر انکم سپورٹ پروگرام اور دیگر مقامات پر جو کچھ ہوتا ہے اس کے بارے میں تو کوئی آواز نہیں اٹھاتا کیونکہ اس سے ان کے گھروں میں نقد فائدہ آ رہا ہے، افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بنوں میں خواجہ سراؤں کے ساتھ زبردستی جنسی زیادتی کی جاتی ہے اور اگر کہیں وہ انکار کی جسارت کریں تو انہیں قتل کر دیا جاتا ہے، یہ دوغلاپن ہے کہ جس کی پوری زندگی بچہ بازی، لواطت، سودخوری میں گزرے لیکن پورے سال کے صرف تین چار دنوں کیلئے خواتین فیملی پارک جائیں تو گلا پھاڑ پھاڑ کر نعرے لگاتے ہیں کہ یہ بے حیائی اور فحاشی ہے۔